کڑے وقت میں وفاداریاں بدلنے والے اپنی سیاست ختم کر بیٹھتے ہیں

پچھلے کچھ عرصہ سے سابق وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مصطفیٰ نواز کھوکھر قوم کی رہنمائی کے دعوے کے ساتھ میدان میں ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اپنی پارٹی کی تشہیر کیلئے اجلاس منعقد کئے لیکن اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

کڑے وقت میں وفاداریاں بدلنے والے اپنی سیاست ختم کر بیٹھتے ہیں

ہماری سیاسی جماعتوں میں شامل کچھ ابن الوقت رہنما وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر معلوم کر لیتے ہیں کہ اقتدار کا ہما اس بار کس جماعت کے سر پر بیٹھنے والا ہے اور پھر وہ اپنی جماعت کو خیرباد کہہ کر نئی جماعت میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت وہ سابقہ جماعت میں دیے گئے عہدے اور عزت کو بھی فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ نئی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے وقت ان کے زیرِ نظر صرف اور صرف وقتی مفاد ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ نئی جماعت میں اگر انہیں وہ عزت نہیں ملی تو پھر کہاں جائیں گے۔

ماضی کو دیکھیں تو جب ذوالفقار علی بھٹو پر برا وقت آیا تو پارٹی کے تقریباً تمام اہم رہنما جن میں ممتاز علی بھٹو، حنیف رامے، عبدالحفیظ پیرزادہ، مولانا کوثر نیازی، مصطفیٰ کھر، معراج خالد وغیرہ شامل تھے، سیاسی منظرنامے سے غائب ہو گئے، لیکن کیا ان کی سیاست بچی؟

پھر ہم نے یہی تماشہ ایک بار پھر دیکھا جب میاں نواز شریف کو جلا وطن کر دیا گیا۔ اس وقت چودھری برادران، میاں اظہر، شیخ رشید وغیرہ نے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے نئی جماعت بنا کر وقتی فوائد حاصل کر لئے لیکن آج وہ کس حال میں ہیں؟ اسی طرح جب میاں صاحب کو تیسری بار اقتدار سے نکالا گیا تو چکری کے چودھری نثار نے اپنے راستے جدا کر لئے اور اب یہ حال ہے کہ پھرتے ہیں مؔیر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔

پچھلے کچھ عرصہ سے سابق وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مصطفیٰ نواز کھوکھر قوم کی رہنمائی کے دعوے کے ساتھ میدان میں ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اپنی پارٹی کی تشہیر کیلئے اجلاس منعقد کئے لیکن اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ شاہد خاقان عباسی نے حال ہی میں لندن پہنچ کر میاں صاحب سے ملاقات کی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم دونوں کے درمیان کیا گفتگو ہوئی لیکن بظاہر نہیں لگتا کہ ان کو کھویا ہوا مقام مل پائے گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میاں صاحب کا دل بہت بڑا ہے اس لئے کچھ دن انتظار کرنا پڑے گا۔

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔