آ سہیلی محبت کے اس پار چلیں

آ سہیلی محبت کے اس پار چلیں
آ سہیلی محبت کے اس پار چلیں

کر کے ہم محنت کا سنگھار چلیں

سن سہیلی تجھے ایک بات بتاؤں! آج جب زندگی خوب برے سے پیش آ چکی ہے، وقت اپنے سب رنگ دکھا چکا ہے اور ساری حقیقتیں کھل کے سامنے آ چکی ہیں تو جو سب سے بڑا دھوکا میں نے کھایا نا، وہ محبت کے نام پر تھا۔

اس لیے سوچا کہ تجھے پاس بیٹھ کر سمجھا دوں۔ میری چھوٹی سی سہیلی تجھے وہ سراب دکھا دوں جو ہمیشہ ہمیں غلط سمت میں سفر کرواتا ہے۔

تجھے پتہ ہے تیرے اردگرد جو جذبات کا سمندر پھیلایا گیا ہے وہ بڑی چال ہے اس زمانے کی۔ تیری اس کچی عقل کی عمر کو اپنے وَش میں کرنے کو یہ محبت کے نغمے گھڑے گئے ہیں۔ تیرا راستہ کھوٹا کرنے کو شہزادوں کے کردار بنائے گئے ہیں اور تجھے قید میں رکھنے کو یہ محبت کے آنگن کے سہانے سپنے ہر طرف سِیل پر لگے ہیں مگر اس کے پیچھے مقصد بس ایک ہی ہے۔ تجھے اڑنے سے روکنا۔ تیرے کندھوں پر تیری مرضی سے وہ بوجھ رکھنا جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور ایک دن تو اس کے نیچے دب کے اپنا نام، پہچان خواب سب کھو دیتی ہے۔

25006/

پتہ ہے وقت کی بڑی قیمت ہے، زندگی کی ساری کامیابی گھومتی ہی صیح وقت پر صیح فیصلہ کرنے پر ہے۔

تجھے پتہ ہے اس دنیا میں جس مخلوق کے پاس سب سے کم وقت ہے وہ کون ہے؟ جَھلی سوچ مت، وہ مخلوق تو ہے۔ وہ مخلوق میں ہوں، ہم سو سال بھی جی لیں! وہ وقت جو ہماری قسمت طے کرتا ہے وہ کچھ سال ہوتے ہیں، یعنی کچھ لمحے۔۔۔

سن! یہ معاشرہ بڑا ظالم ہے ایک لمحے کے بے فیض گزر جانے کا تاوان ساری زندگی ہم سے لیتا ہے اور چالاک اور چال باز اتنا کہ یہ تھوڑا سا قیمتی وقت ہم سے چھیننے کو اس نے دھوکے ہزار گھڑے ہوئے ہیں۔ مگر سنبھل کے، ان دھوکوں سے بچ کے چلنا، وہ وقت کسی قیمت پر ہاتھ سے نا جانے دینا کہ یہ پھر غلطی کو سدھارنے نہیں دیتا۔ بہت بڑی قیمت لیتا ہے ہم سے اس ایک بےوقوفی کی۔

24797/

اور تجھے پتہ ہے تجھ سے تیرا آسمان لے کے تجھے پنجرے میں قید کرنے کو جو سب سے بڑا جال یہ استعمال کرتا ہے وہ جال گھر کہلاتا ہے اور دانے ڈالتا ہے یہ محبت کے، جھوٹی محبت کے-

اس کو پتہ ہے ایک بار تو نے گھر سے پہلے خود کو رکھ لیا۔ یہ کہہ دیا کہ پرائے گھر سے پہلے میں اپنے حصے کی زمین اور آسمان کو جیتوں گی پھر یہ تجھے نہیں قید کر پائے گا، پھر تو اڑے گی ، اسی سے ڈرتا ہے یہ، تیرے تو ہونے سے اس کے ہاتھ پاؤں کانپتے ہیں۔

مگر جیسے دودھ کی بڑی سی دیگ کو دہی بنانے کو بھی بس صیح وقت پر، صیح گرم دودھ کو بس تھوڑا سا جاگ لگانا ہوتا ہے بس سہی وقت پر اس میں تھوڑا سا اور دہی گرانا ہوتا ہے، اسی طرح اپنا آپ جیتنے کو صیح فیصلہ کرنا ہوتا ہے، صیح وقت پر کرنا ہوتا ہے۔

جب یہ زمانہ تجھے گھر کا خواب دکھاتا ہے، تجھے کہتا ہے کہ ایک شہزادہ آئے گا تجھے لے جائے گا اور تو ہمیشہ اس کے گھر ملکہ بن کے رہے گی، تو نے کبھی اپنے اردگرد بسنے والی ایسی ملکہ دیکھی۔ ان کی آنکھوں میں بجھی زندگی ، ان کی پلکوں پر رکے آنسو، اور ان کی ہنسی میں ان کی اپنی ہی ذات کا تمسخر سنتا ہے نا تجھے، سن میری سہیلی کتنی آہ چھپی ہے ان کے سب ٹھیک ہے کہنے میں۔

پتہ ہے ایسا کیوں ہے ؟  اس لیے کہ مقدر بادشاہی دے بھی دے تو تاج سنبھالنا اپنا ہنر ہوتا ہے۔ جو ملکہ سر کو جھکا دے اس کا تاج پیروں میں جا گرتا ہے۔ اور پھر چار دن کی چاندنی کے بعد ہمیشہ کی غلامی مقدر ہو جاتی ہے۔ اس لیے یہ خوابوں کی دنیا چھوڑ۔ میرا ہاتھ پکڑ میں تجھے دکھاتی ہوں تیری اپنی کمائی دنیا کیسی ہو گی؟

تو چھوڑ شہزادوں کا انتظار چل آ میں تجھے بتاؤں کیسے ہاتھ میں ہنر کی تلوار پکڑ کے تو آپ اپنا شہزادہ بن سکتی ہے۔ تابوت میں آنکھیں بند کر کے کسی کا انتظار کرتے عمر کے سنہری سال گزارنے سے اچھا ہے چل اٹھ، اٹھ میرے ساتھ چل۔ ہم معاشرے کے جنگل اور معیشیت کی دلدل سے اپنے بل بوتے پر نکلتے ہیں۔

کوئی ہاتھ پکڑ کے لے کے جائے گا تو اپنے پسند کے راستوں پر چلائے گا۔ ہم اپنی چنی پگڈنڈیوں پر سفر کرتے ہیں۔ کسی کے آنگن کو سجانے کی بجائے ہم اپنی چھت بناتے ہیں۔

24213/

دیکھ، دیکھ میری بات سن! میں تجھے تیری فطرت کے خلاف جانے کو نہیں کہہ رہی، میں تو تجھے بس اتنا سمجھا رہی ہوں کہ بن سنور کے کسی شہزادے کی منتظر ہونے کی بجائے ہنر کی تلوار سے وہ نام کما کہ شہزادے تیری ہاں کو ترسیں۔

میں تجھے یہ نہیں کہہ رہی کہ تو حاکم بن، بس تو محکوم ہونے سے انکار کر دے۔ تجھے پتہ ہے سب سے زیادہ خوبصورتی کہاں ہوتی ہے جہاں توازن ہو، برابری ہو۔ جب گھر کی بات ہے، تو توازن کیوں نہیں میری جان، اس کی کمائی اور تیرا قد کاٹھ کیوں، اس کی تعلیم اور تیری رنگت معیار کیوں، پہلے دن سے ہی توازن کو بگاڑنے کو۔

تو بھی برابر کا کما، برابر کا پڑھ، برابر کا گھر بنا، تبھی تو وہ برابر کا اس گھر کو تیرے ساتھ سجائے گا، تبھی تو توازن ہو گا ، تبھی خوبصورتی ہو گی۔

جب وہ ہنر کمانے میں مصروف ہے تو، تو کیوں رنگ نکھارنے اور بال بڑھانے کو زندگی کا مقصد سمجھے بیٹھی ہے، یہی کچھ سال ہیں ان میں خود کو سکھا میری ننھی سی سہیلی۔

اپنا آپ پہچان، ہر رنگ برنگے سپنے کو پاؤں کی ٹھوکر سے دور پھینک کے محنت کے، ہنر کے پروں سے اڑ، اپنے آسمان پر اڑ پھر دیکھنا جب اوپر سے دیکھو تو زمیں کتنی خوبصورت لگتی ہے۔ اس محبت کے مصنوعی قوس و قزاح کے پار جو آسمان ہے وہ کتنا وسیع کھلا نیلا اور دھوپ سے دھلا ہے۔ سوچ ذرا، اس آسمان پر اپنی محنت سے اڑتی تو، کیا لگے گی۔

تابوت میں بند شہزادے کا انتظار کرنے سے، اس آسمان پر کسی کو اپنے ساتھ اڑنے کی اجازت دینا کہیں بھلا لگے گا۔

ان ادھار کے خوابوں سے بڑی خوبصورت حقیقت ہو گی وہ جو تو خود کمائے گی، خوبصورت نہ بھی ہو وہ تیری ہو گی کسی کی بھیک میں دی نہیں ہو گی۔

بس مسلئہ اس وقت کا ہے، اگر تو نے غلط وقت پر اس خوابوں کے جال میں خود کو الجھا دیا تو پھر یہ رشتوں کا جال کبھی تجھے آڑنے نہیں دے گا۔ اس کی بندش سخت سے سخت اور اس کا بوجھ زیادہ سے زیادہ ہوتا جائے گا۔ اس لیے میری چھوٹی سی سہیلی، کانوں سے یہ تیری ذات کے بیری نغمے، آنکھوں سے رنگیں سپنے، گلے سے عمر نکلی جا رہی کا طوق اتار اور پہلے اپنا آسمان جیت پھر کسی منڈیر پر بیٹھا۔

تجھے پتہ  ہے تیرے نازک پَر تو ویسے بھی کاٹنے کو بیتاب ہیں سب شکاری یہاں، تیرے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے، اسے قدرت کی ناانصافی سمجھ یا معاشرے کی ستم ظریفی، پر میری رانی ایک ہی طریقہ ہے تیرے پاس تجھے پانے کا، اپنے پاؤں کی زنجیر کو پہچان، چاہے یہ کسی خواب کی صورت ہو چاہے ابا کی ضد کی، تو ڈٹ جا اپنے دل کے آگے بھی، اور گھر کے آگے ابھی، ابا کو بھی سمجھا کہ جب تک میری زمین میرے پیروں تلے نہیں کسی انجان رستے کا سفر نہیں شروع کرنا مجھے، بنا زاد راہ کے شروع کیے سفر آدھے راستے میں عذاب بن جاتے ہیں۔ اور کوئی خوابوں کی دکان لگائے تو اسے بھی کہہ رک! ابھی ان خوابوں کی قیمت چکانے کا انتظام نہیں ہے میرے حصے کے خواب ہیں تو انتظار کریں، میں پہلے اپنی حقیقت سے الجھ لوں، دھوکے ہیں تو دھوکے کے کھونے کا کیا دکھ میری بنو!

23692/

کچھ سال ہیں، صرف کچھ سال! زندگی کی تلخی سہہ لے۔ اس کے بعد قسمت بھی گرا تو سکتی ہے تجھے ہرا نہیں سکتی۔

ادھر ہاتھ دے مجھے! وعدہ کر تو اپنے حصے کی زمین جیتے گی تو میں بھی وعدہ کرتی ہوں ایک دن تیرا آسمان خود چل کے تیرے سر پر سایا کرنے آئے گا۔

خواب سارے ہی پورے ہو جاتے ہیں ایک نہ ایک دن ، بس اگر وقت پر صیح فیصلہ نہ ہوا تو، تو کھو جائے گی۔ خود کو پہچان لے میری جان، اپنی قسمت کسی شہزادے کے بھول کے تیرے در پر آ نکلنے کی بجائے اپنی ہتھیلیوں کے ہنر میں لکھ۔ پھر دیکھنا خواب سارے تجھ سے حقیقت ہونے کی بھیک مانگنے کیسے آتے ہیں؟