خواتین کے حقوق کے لحاظ سے ہم بحیثیت معاشرہ منافق ثابت ہوئے ہیں

خواتین کے حقوق کے لحاظ سے ہم بحیثیت معاشرہ منافق ثابت ہوئے ہیں
جب بھی آپ خواتین کے حقوق کی بات کریں گے بہت سے لوگ اس کو توہین سمجھنے لگے گے۔ ہمیشہ ہم بات کرتے ہیں، جنسی تشدد، ریپ، شوہر سے مار پیٹ وغیرہ کے بارے میں۔ شوہر تو عام طور پر زندگی میں بعد میں آتے ہیں لیکن عورت اپنے جذبات کے ہاتھوں پہلے ہی بہت سے دھوکے کھا چکی ہوتی ہے۔ اب آپ کے دماغ میں بہت سی چیزیں آئیں گی لیکن میں ایک والد کی غیر منصفانہ تقسیم کی بات کر رہی ہوں۔

ہم نے بہت سنا کہ اقدار اور تمیز کے لحاظ سے پہلے کی جنریشن بہت سلجھی ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے ہو۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہر دور میں اچھی اور بری چیزیں ہوتی ہیں۔ سب سے پہلا حق جو بیٹیوں سے چھین لیا جاتا ہے وہ ان کے پیدا ہونے کی خوشی ہے۔ یہ دستور اب زمانے کے ساتھ ساتھ بدل رہا ہے۔ پھر میں نے اپنے آبا و اجداد کی جنریشن کو بیٹوں کو پڑھانے لکھانے پر غور کرتے اور بیٹیوں کو محض بیاہ کر اپنی ذمہ داری پوری کرنے پر غور کرتے دیکھا ہے۔ ان معصوم آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ بیٹی کی شادی کرنے کے بعد ایک ہی تلقین کی گئی کہ جنازہ آئے طلاق نہیں۔ اس پر ان سب کو بہت فخر ہے اور ان کو لگتا ہے یہ بہت اعلیٰ اقدار تھیں۔

اس ناچیز نے کئی گھروں میں بچوں کو ہر وقت اپنے والدین کی لڑائی پر پریشان ہوتے دیکھا ہے۔ یہ سب چیزیں بچے کی دماغی صلاحیت کو ختم کر دیتی ہیں۔ لیکن کبھی بھی کسی کے والد یا بھائی کو ڈٹ کر ساتھ کھڑے ہوتے نہیں دیکھا۔ ایسا نہیں کہ اچھے لوگ نہیں ہیں، ہوتے ہیں لیکن یہ معاشرہ خود غرضی کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ ساتھ کھڑا ہونا تو دور کی بات ہے، ایک ہی باپ کے بچوں میں جب فرق آتا ہے خواہ وہ مالی لحاظ سے ہو تو آپ تذلیل دیکھیں گے۔ ایک ہی باپ کی غیر منصفانہ تقسیم سے جو فرق آئے گا اس پر اسی والد کے بیٹے مذاق مذاق میں ان خواتین کو یہ یاد کروائیں گے کہ بیٹا ہونے کا کیا فائدہ ہے۔

میرے نزدیک والدین بھی غلطیاں کرتے ہیں کیونکہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بچے باشعور ہو جائیں تو حالات بدلنے لگتے ہیں۔ پاکستان میں کئی خواتین بلکہ ایک بڑی تعداد جائیداد میں شریعت کے مطابق حصہ نہ ملنے پر بہت سی مشکلات کا شکار ہوتی ہے اور ان کے ساتھ زیادتی یا بد دیانتی کرنے والے باہر والے نہیں بلکہ ان کے اپنے ہوتے ہیں جن کی محبت پر سوال کرنا بھی ان کے لیے جرم جیسا ہے۔

آپ ساری دنیا کے لیے بھی مسیحا ہیں اور اپنی بیٹی یا بہن کی مشکلات کو سمجھ نہیں سکے تو آپ کی کسی بھی بات کا کوئی جواز نہیں۔ اگر آپ مالی لحاظ سے اسے مضبوظ کر دیں یا محض اتنا قابل بنا دیں کہ کل کو اسے آپ کی طرف دیکھنا نہ پڑے۔ وہ اپنے حق پر سر اٹھا کر چلے، نا کہ ساری زندگی تذلیل کا سامنا کرے۔ یہ بات ان والدین کے لیے ہے جو صاحب استطاعت ہونے کے باوجود انصاف نہیں کرتے۔ آج باہر کئی لوگ عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں جو کبھی اپنی بہنوں سے زیادتی پر آواز نہ اٹھا سکے اور خود ان کے مجرم ہیں۔ ہم بحثیت معاشرہ منافق لوگ ہیں۔

رامین محمود صحافی ہیں اور سماء ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہیں۔