گاؤں کی عزت، ہمیشہ محفوظ ہی رہتی تھی۔۔۔

گاؤں کی عزت، ہمیشہ محفوظ ہی رہتی تھی۔۔۔
گاؤں کی عزت محفوظ 

گاؤں کی اکلوتی سڑک سے جڑی پگڈنڈی

پگڈنڈی کے دوسرے سرے پر ،چٹی سفید شمی،،،، چودھری کی بیوی

باسو کمہار کا بازو کھینچنے کے سماجی فاصلہ کم کر رہی تھی ۔۔

اچھے کی واحد گناہ یہ تھا کہ اس نے دونوں کو ،،،سورج سے پہلے دیکھ لیا تھا

چودھری نے بھری پنچائت میں گاوں کی عزت اچھالنے کے جرم میں سز اسنا دی

اگلے روز سورج نکلنے سے پہلے اچھے کی ناپاک آنکھیں ،، مٹا دی گئیں

اگلی سردیوں میں ،،،فیقا فصلوں کو پانی دے کر واپس آ رہا تھا ،،،سامنے ،، وہی شمی ،،،چودھری کی بیوی

فیقا کے سامنے ،، شمی کے گورے رنگ سے پہلے ،،،اچھے کی مردہ آنکھیں ،،، آ کھڑی ہوئیں

فیقا کھیتوں کی طرف بھاگنے لگا تو شمی نے اسکا بازو پکڑ لیا

خود کو چھڑانے میں ، فیقے سے شمی کمی قمیض پھٹ گئی

پھر پنچائت ، پھر فیصلہ ، پھر انصاف کا بول بالا

فیقا کا ایک ہاتھ ، گاوں کی عزت تار تار کرنے پر کاٹ دیا گیا

اسکے بعد سے گاو ں کی عزت ،،، ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئی

کبھی کھیتوں میں ، کبھی بھینسوں کے باڑے میں ،،، کبھی غلے کے گودام میں

گاوں کی عزت ،، ہمیشہ محفوظ ہی رہتی تھی۔۔۔