بکریاں چرا کر گزر بسر کرنے والی باہمت خواجہ سرا غلام دائود کی کہانی

بکریاں چرا کر گزر بسر کرنے والی باہمت خواجہ سرا غلام دائود کی کہانی
ماہی گیروں کی بستی ابراہیم حیدری کی خواجہ سرا گذشتہ 27 سال سے بکریاں چرا کر اپنی گزر اوقات کر رہی ہیں۔ چالیس سالہ غلام دائود کو خواجہ سرائوں کے گرو نے اپنے ساتھ شامل ہونے کی پیشکش کی تھی لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔

غلام دائود نے بتایا کہ خواجہ سرا اپنی کمیونٹی میں شامل ہونے کیلئے اسے والدین کو چھوڑنے کا کہہ رہے تھے لیکن میں نے کہا کہ میں اپنی بوڑھی ماں کو نہیں چھوڑ سکتی، بھلا جس نے پیدا کیا، اسے بھی کوئی چھوڑ سکتا ہے؟

بکریاں چرانے کے کام بارے بتاتے ہوئے غلام دائود کا کہنا تھا کہ یہ میرے دادا کا پیشہ تھا۔ میں 12 سال کی عمر میں ان کیساتھ بڑے شوق سے جایا کرتی تھی۔ جب ان کا انتقال ہوا تو اس کے بعد میں نے یہ کام سنبھال لیا۔

اس نے بتایا کہ مجھے فی بکری ماہانہ 400 روپے ملتے ہیں اور وہ اسی آمدنی سے اپنا گزر بسر کرتی ہیں۔ میں صبح 9 بجے بکریاں چرانے نکلتی ہوں اور شام 4 بجے واپس آتی ہوں۔

وائس آف امریکا سے گفتگو میں خواجہ سرا کا کہنا تھا کہ میرے پاس 35 بکریاں ہیں لیکن ان کے مالکان مجھے پیسے ٹائم پر نہیں دیتے، لیکن میں صبر کر لیتی ہوں تو پھر اللہ مجھے دے دیتا ہے۔

اپنی جنس کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ بچپن میں مجھے اس بارے میں کچھ نہیں پتا تھا لیکن جب میں کچھ بڑی ہوئی تو مجھے پتا چلا کہ میں خواجہ سرا ہوں۔ میرے والد نے میرا علاج کرانے کی بہت کوشش کی لیکن ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہ قدرت کا کام ہے۔

اس نے بتایا کہ میرے والدین بہت شفیق ہیں، تاہم بھائیوں کی اپنی اپنی زندگی ہے۔ ان کا ارادہ تو تھا کہ مجھے گھر سے نکال دیں لیکن میرے والد نے مجھ پر مہربانی کرکے مجھے ایک کوٹھڑی دے رکھی ہے جس میں رہتی ہوں۔

غلام دائود نے بتایا کہ مجھے اللہ کا گھر دیکھنے کی بڑی خواہش تھی، میں نے عمرہ پر جانے کیلئے 90 ہزار روپے بڑی مشکل سے اکھٹے کئے لیکن وہ ایجنٹ کھا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ چونکہ میں خواجہ سرا ہوں اس لئے میرے ساتھ جانے کو کوئی تیار نہیں ہے۔

اس معاملے پر دکھی دل سے بات کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ میں نے عمرہ پر جانے والے قافلے سے بات کی تو انہوں نے بھی مجھے لے جانے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ تم خواجہ سرا ہو، ہم تمہیں وہاں نہیں لے کر جا سکتے۔

بکریوں کی نفسیات بیان کرتے ہوئے غلام دائود کا کہنا تھا کہ انسانوں سے اچھے تو یہ بے زبان ہیں۔ انھیں کھانے کو کچھ دو یا نہ دو، کوئی تقاضا نہیں کرتے۔ کبھی ایسے بھی حالات ہو جاتے ہیں میرے پاس اپنے کھانے کیلئے بھی پیسے نہیں ہوتے۔