تحریکِ انصاف، ن لیگ یا پیپلز پارٹی: اسٹیبلشمنٹ کے قریب ترین کون؟

تحریکِ انصاف، ن لیگ یا پیپلز پارٹی: اسٹیبلشمنٹ کے قریب ترین کون؟
سردی کے موسم میں جاری جنگ گرمی پکڑ رہی ہے۔ دسمبر کی شروعات کے ساتھ ہی جہاں اسلام آباد کے درجۂ حرارت میں کمی آ رہی ہے، سیاسی سکیل پر تھرما میٹر جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں دکھا رہا ہے۔ ملکی استحکام، یا صاف لفظوں میں کہیں تو عدم استحکام، کی صورتحال پانچ مختلف محاذوں پر چلتی لڑائیوں کی شدت سے جانچی جا سکتی ہے۔

1۔ تحریک انصاف بمقابلہ الیکشن کمیشن: یہ پہلے سے جاری لڑائی ایک مرتبہ پھر شدت پکڑ رہی ہے کیونکہ تحریکِ انصاف کا اصرار ہے کہ الیکشن کمیشن آنے والے ضمنی اور عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ کا استعمال یقینی بنائے۔ پنجاب حکومت بھی اس میں کود پڑی ہے اور ہوا میں مکے گھماتے ہوئے الیکشن کمیشن کو کہہ رہی ہے کہ صوبے میں آئندہ چند ماہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں EVM کا استعمال لازمی ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کا لیکن کہنا ہے کہ وہ متعدد سیاسی مجبوریوں کے باعث EVM کے قانون پر عجلت میں فیصلہ نہیں کر سکتی۔ حکومت کی دھمکی کہ اس کے احکامات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں حکومت الیکشن کمیشن کی فنڈنگ روک دے گی اختلاف کو ایک نئی نہج پر لے جا چکی ہے۔ ریڈ زون میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا اپنے مؤقف سے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے جب تک کہ یہ مطمئن نہ ہو جائے کہ یہ مشینیں ٹیسٹنگ میں بالکل ٹھیک کام کر رہی ہیں اور جب تک یہ تسلی نہ ہو کہ انہیں اتنی بڑی سطح پر ہوئے انتخابات میں استعمال کرنے کے لئے مکمل نظام موجود ہے۔ تحریکِ انصاف اور الیکشن کمیشن کا تعلق ایک مشکل مرحلے میں داخل ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں متعدد آئینی الجھنوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ استحکام اس دوران باامرَ مشکل ہی دستیاب ہوگا۔

2۔ تحریکِ انصاف بمقابلہ PDM: اپوزیشن جماعتوں کا یہ اتحاد اپنی ریلیوں، عوامی احتجاج اور اسلام آباد کی طرف ممکنہ لانگ مارچ جیسے کلیدی فیصلے لے گا اور حکومت کے ساتھ اس کی عرصۂ دراز سے تاخیر کا شکار ہوتی آ رہی لڑائی کا حجم اور اس کی قسمت کا فیصلہ اسی دسمبر میں ہونا ہے۔ تاہم، پی ڈی ایم کی جانب سے کمزور نظر اتے عوامی احتجاج کے باعث تاحال پی ٹی آئی حکومت کا اس لڑائی میں پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ اس نے باتیں تو بہت بڑی بڑی کی ہیں لیکن عملی طور پر کچھ کر نہیں پائی اور فیصلہ لینے میں اس کی کمزوری ثابت کرتی ہے کہ یہ اپنے مستقبل کے لائحۂ عمل کے حوالے سے گومگو کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی کے علیحدہ ہونے سے یہ اتحاد کمزور ہوا ہے، گو اس کا دعویٰ ہے کہ یہ پہلے کہ مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے۔ اپوزیشن ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم کی کمزوری کی ایک اور وجہ مسلم لیگ ن کے ایک بڑے حصے کی جانب سے بے دلی سے دیا گیا ساتھ بھی ہے۔ پارٹی میں موجود عملیت پسند دھڑے کو پی ڈی ایم رہنماؤں کے جارحانہ انداز سے اختلاف ہے اور وہ موجودہ حکومت کو نکالنے کی کوئی ایسی راہ تلاش کرنا چاہتے ہیں جس میں اسٹیبلشمنٹ پر براہِ راست حملے نہ کیے جائیں۔ اس غیر فیصلہ کن انداز نے اتحاد کو کمزور کیا ہے اور اسی وجہ سے اپوزیشن خود کو وزیر اعظم عمران خان کا متبادل ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔

3۔ تحریکِ انصاف بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ: اسلام آباد اور راولپنڈی کے بیچ سب ٹھیک نہیں ہے حالانکہ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ اب معاملات ٹھیک ہو چکے ہیں۔ البتہ پچھلے چند ہفتوں میں تناؤ کی ہئیت غیر محسوس انداز میں تبدیل ہوئی ہے۔ جو پہلے ایک آمنے سامنے کی لڑائی نظر آ رہی تھی اب سرد جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ سرد مہری، ریڈ زون ذرائع کے مطابق، فی الحال ایک حقیقی لڑائی سے زیادہ ایک گونہ علیحدگی کی سی کیفیت ہے۔ لیکن قربت، تعاون اور براہِ راست حمایت ہر سطح پر ختم ہو چکی ہے۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر شک کیا جا رہا ہے۔ اگر PDM نے دسمبر میں درجۂ حرارت کو بڑھایا تو سیاسی صورتحال سے یہ مزید گہرا ہو جائے گا۔ PTI میں بہت سے لوگ مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ اس زخم کو بھرا جائے اور تعلق کو دوبارہ اسی جگہ لے جایا جائے جہاں یہ اختلاف سے پہلے تھا۔ PTI حکومت میں ایک طاقتور ترین شخص سے حال ہی میں ملاقات کرنے والی شخصیت نے بتایا کہ حکومتی جماعت کی سینیئر لیڈرشپ مسلسل دوسری طرف کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ان کے ارادے غلط نہیں تھے۔ تاہم، فی الحال یہ محاذ کھلا ہے، پر قدرے خاموش ہے۔

مسلم لیگ ن بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ: پچھلے چند ہفتوں میں مسلم لیگ نواز نے یہ تاثر بنانے کی کوشش کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کا تنازع سلجھ رہا ہے۔ لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اختلافات بہت گہرے ہیں اور پارٹی میں موجود اندرونی اختلافات اس عمل کو بے سود بنا رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور اسٹیبلشمنٹ میں اختلاف کے آغاز پر مسلم لیگ ن نے بہترین سنگلز دیے تھے جس سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہونے میں مدد ملتی۔ تاہم، اس کے بعد کے اقدامات، مثلاً ثاقب نثار کی آڈیو لیک وغیرہ، نے ان کوششوں کو پٹڑی سے اتار دیا۔ الفاظ کی جنگ بھلے کسی حد تک بند ہو گئی ہو لیکن ارادے اب بھی وہی ہیں۔ پارٹی میں موجود عملیت پسند سیاستدان جن میں بہت سے الیکٹ ایبل بھی شامل ہیں، سمجھتے ہیں کہ وہ ایک بہت مڑے موقع سے فائدہ اٹھانے میں محض اس لئے ناکام ہو جائیں گے کہ پارٹی لیڈرشپ بدلی ہوئی صورتحال کے مطابق خود کو ڈھالنے سے قاصر ہے۔ وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ محاذ کھلا ہے۔

5۔ ن لیگ بمقابلہ پیپلز پارٹی: رواں ہفتے پشاور میں جلسے کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے بغیر نام لیے مسلم لیگ ن پر بھی گولہ باری کی۔ اس ہفتے کے آخر میں ہونے والے لاہور کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے پر شدید تنقید کی ہے۔ ووٹ خریدے جانے کی ویڈیوز لفظی جنگ کو نئی سطح پر لے گئی ہیں۔ اس کی وجہ دراصل وہ بداعتمادی ہے جو دونوں جماعتوں کی لیڈرشپ ایک دوسرے پر رکھتی ہے، گو کہ یہ پی ڈی ایم کے ابتدائی دنوں میں کچھ پردے کے پیچھے چلی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں شروع ہوئی لڑائی کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اس کے لئے ن لیگ کو مسلسل کہہ رہی ہے کہ وہ طریقے سے سیاست کرے۔ اسٹیبشلمنٹ کے قریبی لوگ سمجھتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے میں پیپلز پارٹی کا تاثر بہتر ہوا ہے۔ نتیجتاً مسلم لیگ ن کے ساتھ اس کے تعلقات مزید خواب ہو گئے ہیں کیونکہ ن لیگ کا جارح مزاج گروپ سمجھتا ہے کہ پیپلز پارٹی اب اپنے طور پر اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر کے ن لیگ کی قیمت پر انتخابات میں اپنا حصہ وصول کرنا چاہتی ہے۔ دسمبر میں ہونے والے لاہور کے ضمنی انتخاب اور پی ڈی ایم کے فیصلوں کی روشنی میں دونوں جماعتوں میں تناؤ پھر سے واضح ہوگا۔ یہ محاذ بھی کھلا ہے اور کسی بھی وقت گرم ہو سکتا ہے۔

مالِ غنیمت پر جاری ان متعدد چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں بڑی جنگ کا فیصلہ مزید غیر یقینی کا شکار نظر آتا ہے۔




فہد حسین کا یہ مضمون ڈان میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔