ہمیں مقامی روایات سے ہم آہنگ بچوں کا ادب تخلیق کرنا ہو گا

اشتیاق احمد اور ابن صفی سمیت ابن آس، نذیر انبالوی، نوشاد عادل سمیت کتنے لوگوں نے لکھا ہے بلکہ بہترین لکھا ہے مگر انہیں وہ مقام حاصل نہیں ہو پایا جو بین الاقوامی سطح پر ہیری پوٹر کی رائٹر کو ملا ہے۔ حالانکہ ہمارے رائٹرز کے آئیڈیاز اور خیالات میں ان سے زیادہ تنوع ہے۔

ہمیں مقامی روایات سے ہم آہنگ بچوں کا ادب تخلیق کرنا ہو گا

بچوں کا عالمی دن دنیا بھر کے بچوں کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے، جو ان کے حقوق، فلاح و بہبود اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اگرچہ یہ دن مختلف تقریبات اور سرگرمیوں کے ذریعے منایا جاتا ہے، لیکن ایک اہم پہلو جسے اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے وہ پاکستانی بچوں کے منفرد ثقافتی تناظر کے مطابق معیاری ادب کی ضرورت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کے ادب کی اہمیت کیوں ہے؟ کیوں اس پر سوچا جائے جبکہ دنیا بھر میں سوشل میڈیا نے ایک طوفان برپا کیا ہوا ہے اور باہر ممالک کا ادب انہیں انٹرنیٹ پر مختلف جہتوں میں دستیاب ہے تو پاکستانی بچوں کو اس سے استفادہ حاصل کرنا چاہیئے، ان کے لئے خود سے کیونکر پاکستان میں ادب کی تخلیق کی جائے؟

اس کا سیدھا سادہ جواب یہ بنتا ہے کہ ہر ملک کی اپنی تہذیب اور ثقافت ہوتی ہے جس سے اس ملک کے لکھاری ہی بچوں کو روشناس کرا سکتے ہیں، نہ کہ دوسرے ممالک کے لکھاری ان کو متاثر کرتے ہیں۔ ہم جب بچے تھے تو دادا جان سے جنوں بھوتوں کی کہانیاں اور پھر ایک بہادر نوجوان کے کردار کی کہانیاں سنتے تھے جو مسلمان ہوتا اور ہر مسئلے کا حل جانتا تھا۔ دادا جان کہا کرتے تھے کہ ان کے پاس ایک پوٹلی ہے جس میں کہانیاں موجود ہیں اور وہ ہر رات ایک کہانی اس پوٹلی سے نکالتے ہیں۔ ہم بڑے ہو گئے مگر دادا جان کی کہانیاں ختم نہیں ہوئیں۔ یوں ہم اس عادت سے مجبور ہو کر لکھنے لگے اور بچوں کے رائٹر بن گئے جب بہت کم بچوں کے لئے لکھا جاتا تھا۔

میں آج بھی سوچتا ہوں کہ مجھے کس چیز نے لکھنے پر مائل کیا تو جواب آتا ہے کہ دادا جان کی کہانیوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں لکھوں اور پھر ہم لکھتے گئے۔ اس سے ہم میں شعور پیدا ہوتا گیا جس کی وجہ سے مجھے یہ احساس ہو گیا کہ بچوں کا ادب نوجوان ذہنوں کی تشکیل، تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے اور اقدار کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اچھی طرح سے تیار کی گئی کہانیاں نہ صرف تفریح مہیا کرتی ہیں بلکہ تعلیم بھی دیتی ہیں۔ بچوں کو ضروری علمی اور جذباتی مہارتوں کو فروغ دینے میں مدد کرتی ہیں۔ تاہم پاکستان کے تناظر میں بچوں کے لیے متنوع اور ثقافتی لحاظ سے متعلقہ لٹریچر کی دستیابی میں نمایاں خلا موجود ہے جو پُر نہیں ہوتا۔

بچوں کو ان کے ابتدائی سالوں میں جن کہانیوں کا سامنا ہوتا ہے وہ ان کے عالمی نظریے کو نمایاں طور پر متاثر کرتی ہیں۔ پاکستانی بچوں کے لیے ایسے ادب تک رسائی حاصل کرنا بہت ضروری ہے جو ان کی اپنی ثقافت، روایات اور اقدار کی عکاسی کرتا ہو۔ کہانیوں میں مقامی اور علاقائی ماحول کی عکاسی کر کے مصنفین واقفیت اور فخر کا احساس پیدا کر سکتے ہیں، جس سے بچوں کو کرداروں اور ترتیبات سے زیادہ قریب ہونے کا موقع ملتا ہے۔ بچوں کے لیے پاکستانی ادب نہ صرف تفریح بلکہ ثقافتی ورثے کے تحفظ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ایسی کہانیوں کے ذریعے جو پاکستان کی تاریخ، روایات اور لوک داستانوں سے بھری ہوں، ان کہانیوں کو ملک بھر کے لکھاریوں سے لکھوایا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں نوجوان قارئین بچوں میں فخر اور تعریف کا احساس پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی ہیری پوٹر کی رائٹر ایک کتاب سے امیر ترین بن گئی جبکہ پاکستان میں رائٹر طبقہ سب سے زیادہ مفلوک الحال ہے جس کی وجہ سے کوئی اس جانب توجہ بھی نہیں دیتا۔ اشتیاق احمد اور ابن صفی سمیت ابن آس، نذیر انبالوی، نوشاد عادل سمیت کتنے لوگوں نے لکھا ہے بلکہ بہترین لکھا ہے مگر انہیں وہ مقام حاصل نہیں ہو پایا جو بین الاقوامی سطح پر ہیری پوٹر کی رائٹر کو ملا ہے۔ حالانکہ ہمارے رائٹرز کے آئیڈیاز اور خیالات میں ان سے زیادہ تنوع ہے۔

پاکستان ایک متنوع ملک ہے جس میں مختلف نسلوں، زبانوں اور روایات کی آمیزش ہے۔ بچوں کے ادب کو اس تنوع کو اپنانا چاہئیے اور پاکستانی معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرنے والی کہانیوں کی ایک وسیع رینج پیش کرنی چاہئیے۔ ایسا کرنے سے نوجوان نسل میں افہام و تفہیم، رواداری اور اتحاد کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

بچوں کا معیاری ادب تخلیق کرنے کے لیے مصنفین، مصوروں، پبلشرز اور ماہرین تعلیم کی سرشار کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ محدود وسائل اور بچوں کی کتابوں کی چھوٹی مارکیٹ جیسے چیلنجز موجود ہیں۔ عالمی یوم اطفال نوجوانوں کے ذہنوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر مستقبل میں سرمایہ کاری کے غیر استعمال شدہ مواقع کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے۔ لیکن دیگر مسائل پر سوچنے کے ساتھ ساتھ اگر ہر سال بچوں کے عالمی دن کے موقع پر بچوں کے مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لئے پروگرام منعقد کیے جائیں اور بچوں کے لئے علیحدہ ٹی وی چینل بنایا جائے جس میں ہر عمر کے بچوں کے لئے ادب تخلیق کیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ہماری بچی کھچی روایات زندہ رہ جائیں گی، ورنہ ان کا کچھ سالوں بعد خدا ہی حافظ ہے۔

بچوں کے اس عالمی دن پر، آئیے ہم پاکستانی بچوں کو ایسا ادب فراہم کرنے کی اہمیت کو تسلیم کریں جو نہ صرف تفریح فراہم کرتا ہے بلکہ تعلیم یافتہ اور بااختیار بھی بناتا ہے۔ ثقافتی طور پر متعلقہ کہانیوں کی تخلیق اور ترویج میں سرمایہ کاری کر کے، ہم ایسے اچھے لوگوں کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں جنہیں اپنے ورثے پر فخر ہے اور وہ مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لیس ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ الفاظ اور کہانی کے جادو کے ذریعے آنے والی نسل کو متاثر کیا جائے۔ پاکستان کے بچوں کے لیے ایک روشن اور زیادہ تخیلاتی مستقبل بنایا جائے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔