معروف صحافی اعزاز سید نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی کے ڈی جی سی کی اہمیت کا علم سب سے زیادہ پاکستان تحریک انصاف کو اس لئے ہے کیونکہ ان کی نشوونما اور ترقی کے پیچھے بہت سے ڈی جی سی کا ہاتھ تھا۔
حال ہی میں عمر چیمہ کے ساتھ اپنے یوٹیوب چینل پر ایک وی-لاگ میں اعزاز سید نے عمران خان کے ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر پر لگائے گئے الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ محبت و قربت کا احوال بیان کیا۔
انہوں نے کہا کہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی بننے سے قبل ڈائریکٹر جنرل کاؤنٹر انٹیلی جنس [ ڈی جی سی] تھے۔ موصوف آج کل پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے باعث بہت مقبول بھی ہیں۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے علاوہ بھی ایک چاکلیٹی کردار موجود ہے وہ لیفٹننٹ جنرل ظہیرالاسلام ہیں۔ وہ بھی ڈی جی آئی ایس آئی بننے سے پہلے ڈی جی سی اور کور کمانڈر کراچی بھی رہ چکے ہیں۔
اعزاز سید نے ماضی کے مختلف ڈی جی سیز کے پی ٹی آئی کی طرف جھکاؤ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کو ڈی جی سی کا سب سے زیادہ علم ہے۔ جب جنرل احمد شجاع پاشا ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر فائز تھے تب انہوں نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی تھی اور انہوں نے اپنا ڈی جی سی ان کے حوالے کر دیا تھا۔ اس وقت ڈی جی سی ظہیرالاسلام تھے۔ ڈی جی سی نے عمران خان کے لئے سیاسی منظرنامہ طے کیا۔
اسی طرح جنرل فیض حمید بھی 2017 میں جب نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس چل رہا تھا تو ڈی جی سی ہی تھے اور ان پر رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول شدہ جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی اپنے عدالت میں جمع کروائے گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت کے ڈی جی سی جنرل فیض حمید نے ان سے ملاقات کر کے کہا تھا کہ اگر آپ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت لیں گے تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔
بعد ازاں یہی جنرل فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ بنا دیے گئے جنہیں اسی عہدے پر رکھنے کے لئے عمران خان نے بقول خود عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی مول لی کیونکہ وہ انہیں اس عہدے سے ہٹانا نہیں چاہتے تھے اور انہوں نے یہاں تک اعتراف کیا کہ وہ اس عہدے کے لئے فیض حمید کو ہی رکھنا چاہتے تھے کیونکہ اس وقت کی اپوزیشن کے بارے میں اطلاعات تھیں کہ وہ وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانا چاہتے تھے اور عمران خان جنرل فیض حمید کے ذریعے اس عدم اعتماد کو ناکام بنانا چاہتے تھے۔