قتیل شفائی کورومان پرور شاعر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، جن کا شعری کلام ہر ایک کی زبان پر رہا۔ لیکن ناقدین کا ماننا ہے کہ وہ درحقیقت بہترین فلمی نغمہ نگار تھے، جن کے لکھے ہوئے گیت بیتے برسوں کے باوجود آج بھی ذہن کو ترو تازگی اور پیار و محبت کا احساس دلاتے ہیں۔
سیاحتی اور پرفضا مقام ہری پور میں محمد اورنگزیب کے نام سے جنم لینے والے قتیل شفائی کے فلمی سفر پر بات کی جائے توایک سے بڑھ کر ایک گیت مہکنے لگتے ہیں ۔ 1948میں میوزیکل رومنٹک فلم ’تیری یاد‘ میں جب انہوں نے دو گانے لکھے تو یہ دونوں ہی عوامی پذیرائی حاصل کرگئے۔ ان میں ایک ’ دکھ کی ماری برسوں اپنے بھاگ کو روئی‘ تھا تو دوسرا ’ محبت کا مارا چلا جارہا ہے۔‘ جس کے بعد انہوں نے بیشتر فلموں کے لیے ایک یا دو گانے لکھے۔
قتیل شفائی کو پاکستانی فلموں میں قدم جمانے کا صحیح معنوں میں موقع 1953 میں اُس وقت ملا جب ’گلنار‘ پردہ سیمیں کی زینت بنی، اس تخلیق میں قتیل شفائی کے کم و بیش آٹھ گیت شامل تھے۔ ماسٹر غلام حیدر نے قتیل شفائی کے لکھے ہوئے گیتوں پر دل کو چھو لینے والی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کے سبھی گیت مشہور ہوئے۔ ملکہ ترنم نور جہاں جو فلم کی ہیروئن بھی تھیں، انہوں نے بیشتر گانوں کی نغمہ سرائی کی۔ ان میں سب سے زیادہ مقبول تو اے رات ذرا تھم تھم کر گزر، برباد ہے دل ویراں ہے نظر، لو چل دیے وہ ہم کو تسلی دیے بغیر رہے۔
قتیل شفائی نے اگلے دو برسوں کے دوران خود کو پاکستانی فلم کا بہترین نغمہ نگار تو تسلیم کرالیا اور پھر 1955میں صبیحہ خانم، سنتوش کمار اور مسرت نذیر کی فلم ’قاتل‘ آئی تو اس میں قتیل شفائی نے جلترنگ نغموں کی مالا چنی۔ بالخصوص اقبال بانو کی آواز میں گایا ہوا گیت ’الفت کی نئی منزل کو چلا‘ تو آج تک مشہور ہے۔ اسی طرح ’عشق لیلیٰ‘ میں ستاروں تم تو سو جاؤ اور جگر چھلنی ہے دل، اور دل گھبرا رہا ہے محبت کا جنازہ جارہا ہے میں قتیل شفائی کا فن اپنے عروج پر رہا۔
یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ قتیل شفائی کے لکھے ہوئے گانے جس گلوکار نے گائے‘ اُسے غیر معمولی شہرت ملی، جبھی اُس دور کے گلوکاروں کی خواہش ہوتی کہ انہیں کسی طرح قتیل شفائی کے گیت مل جائیں۔ ملکہ ترنم نور جہاں ہوں، اقبال بانو، زبیدہ خانم یا مالا یا پھر کوئی اور گلوکار ان سب کے درمیان قتیل شفائی کے گیت پر نغمہ سرائی کا مقابلہ رہتا۔
قتیل شفائی نے آنے والے برسوں میں جن فلموں سے شہرت اور کامیابی کا سفر طے کیا ان میں ’زہر عشق‘ اور ’نیند‘ نمایاں ہیں۔ بالخصوص ’زہر عشق‘ میں ان کا لکھا ہوا گیت ’چھم چھم ناچو‘ زبیدہ خانم نے ڈوب کر گایا۔ اسی طرح ’نیند‘ میں ملکہ ترنم نور جہاں نے ’ترے در پرصنم چلے آئے‘ کے ساتھ بھرپور انصاف کیا۔ اسی طرح فلم ’سولہ آنے‘ کا گیت ’روتے ہیں چھن چھن نین‘ کون بھلا یادوں سے کھرچ سکتا ہے
قتیل شفائی کی خوش قسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ گلوکاروں کے ساتھ ساتھ انہیں پاکستانی فلم نگری کے منجھے ہوئے موسیقاروں کا ساتھ میسر ہوا۔ ان میں ماسٹر غلام حیدر، خورشید انور، ماسٹر عنایت حسین اور فیروز نظامی قابل ذکر ہیں۔
قتیل شفائی نے 60کی دہائی میں مسحور کن اور یادگار گیتوں کا گلدستہ پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ فلم ’ایک ترا سہارہ‘ کا سلیم رضا اور نسیم بیگم کی آواز میں ریکارڈ گیت ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘ ہو یا پھر فلم ’عشق پہ زور نہیں‘ کا ’دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے‘ یا پھر اسی طرح گلوکارہ مالا کا گیت ’ مجھے آئی نہ جگ سے لاج کہ گھنگرو ٹوٹ گئے‘ میں نغمگی اور پیار کا احساس کے ساتھ ساتھ عشق کا درد بھی خوب چھلکتا ہے۔
قتیل شفائی کے گیتوں کو صرف گلوکاراؤں نے ہی مرد گلوکاروں نے بھی دل کی گہرائیوں سے پیش کیا۔ جیسے ’دل میرا دھڑکن تیر ی‘ میں احمد رشدی کا گایا ہوا ’کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا‘ یا پھر ’سلام محبت‘ کا مہدی حسن کی آواز میں ’کیوں ہم سے خفا ہوگئے اے جان تمنا‘ یا پھر مہدی حسن کی گلوکاری سے ہی سجا ’بانٹ رہا تھا جب خدا سارے جہاں کی نعمتیں‘ یا پھر گلوکار مسعود رانا کا گایا ہوا گیت ’کل بھی تم سے پیار تھا مجھ کو‘ اپنی مثال آپ ہی تصور کیے جاتے ہیں۔
پرائیڈ آف پرفارمنس قتیل شفائی نے ستر اور اسی کی دہائی میں بھی پاکستانی فلموں کے لیے گیت لکھے لیکن پھر لالی وڈ میں گیت سننے کے بجائے ہوشربا رقص اور قابل اعتراض مناظر سے سجنے لگے تو دھیرے دھیرے قتیل شفائی فلمی دنیا سے دور ہوتے چلے گئے۔ اس دوران انہوں نے بھارتی فلموں سر، پھر تیری کہانی یاد آئی، اوزار، ناراض اور ہم ہیں بے مثال کے لیے بھی نغمہ نگاری کی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ قتیل شفائی بہترین فلمی شاعر تھے، جو جانتے تھے کہ گانوں میں کیسے لفظوں کی مٹھاس گھول کر انہیں مقبول بنایا جاتا ہے۔