یوٹیوب چینلز پر لائسنس فیس عائد کرنے کا منصوبہ: عالمی تنظیم نے قانون کو پاکستان میں سنسرشپ کو آن لائن میڈیا تک پھیلانے کی ایک سازش قرار دے دیا

یوٹیوب چینلز پر لائسنس فیس عائد کرنے کا منصوبہ: عالمی تنظیم نے قانون کو پاکستان میں سنسرشپ کو آن لائن میڈیا تک پھیلانے کی ایک سازش قرار دے دیا
آزادی اظہار کے حقوق کی عالمی تنظیم Reporters Without Borders نے 8 جنوری 2020 کو پیمرا کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی ایک مجوزہ پالیسی دستاویز پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ RSF کا کہنا ہے کہ یہ مجوزہ قانون پاکستان میں سنسرشپ کو آن لائن میڈیا تک پھیلانے کی ایک سازش ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ ایک اس سے بھی زیادہ خطرناک پروپوزل سرکاری ذرائع سے پھیلایا جا رہا ہے۔ RSF کے ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیئل باسٹرڈ کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام مرکزی دھارے کے میڈیا پر مکمل طور پر سنسرشپ نافذ کرنے کے بعد اب اپنا رخ سوشل میڈیا کی جانب کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹیرینز سے بھی گذارش کی ہے کہ وہ اس قانون کو پاس ہونے سے روکیں۔

واضح رہے کہ یہ قانون ویڈیو پلیٹ فارمز پر شائع ہونے والے content کی نگرانی کرے گا۔ ان ویب سائٹس میں یوٹیوب، ویمیو اور دیگر ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ Netflix اور Amazon Prime جیسے پلیٹ فارم بھی شامل ہیں۔ یہ قانون اگر نافذ ہو گیا تو ویب ٹی وی چلانے والی کمپنیوں کو چینل بنانے کے لئے لائسنس حاصل کرنا ہوگا اور اس کی فیس دس لاکھ روپے ہوگی۔ ایک عام یوٹیوبر تو کیا، اچھے خاصے میڈیا چینل بھی ایک یوٹیوب چینل کے لئے اتنی خطیر رقم نہیں خرچ کر سکتے۔ مزید یہ کہ اس قانون کے آرٹیکل 5.4 کے تحت کوئی یوٹیوب چینل کسی پالیسی کے خلاف عمل کرتا پایا گیا تو اسے بند کرنے کا اختیار بھی پیمرا کے پاس ہوگا۔

پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں، بشمول میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی، پاکستان پریس فاؤنڈیشن، گلوبل نیبرہوڈ فار میڈیا انوویشن، سنٹر فار پیس اینڈ  ڈویلپمنٹ انیشییٹوز اور نیا دور میڈیا و دیگر، نے بھی اس مجوزہ پالیسی کی شدید مخالفت کی ہے، اور خاص طور پر یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا انڈسٹری کو regulate کرنا پیمرا کے دائرہ اختیار سے باہر ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی پالیسی عوام کے منتخب نمائندگان کی طرف سے آنی چاہیے۔ ایک مشترکہ بیان میں ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جن پر بنیادی سطح کی قانونی مشاورت بھی نہ کی گئی ہو اور وہ آنے والے وقتوں کے لئے ملک کی ڈیجیٹل میڈیا انڈسٹری کی سمت کا تعین کرنے والا ہو۔

بیان میں اٹھائے گئے 5 اہم ترین نکات کچھ یوں ہیں:

دستاویز ڈیجیٹل میڈیا پر سنسرشپ عائد کرنے کی بھونڈی کوشش ہے

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون ڈیجیٹل میڈیا پر قدغنیں لگانے کی ایک بھونڈی کوشش ہے جس کے ذریعے نہ صرف content producers کو قانون کے دائرے میں لانے کے نام پر سنسرشپ عائد کی جائے گی بلکہ یہ بین الاقوامی معیارات کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے جن کا مجوزہ پالیسی دستاویز میں بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پالیسی دستاویز اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنے سے عاری نظر آتی ہے کہ انٹرنیٹ ایک بین الاقوامی میڈیم ہے اور اس پر ایسے قوانین کا اطلاق کیے جانے کی کوشش ہو رہی ہے جو زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔ لہٰذا یہ دستاویز سوشل میڈیا پر سیاسی اظہارِ رائے کو پابند کرنے کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں۔

بار بار ضابطہ اخلاق 2015 کا حوالہ دینے کا مطلب ہے پیمرا آزادیاں چھیننا چاہتا ہے

پالیسی دستاویز میں بار بار ضابطہ اخلاق 2015 کا ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ پیمرا سوشل میڈیا صارفین کی آزادیوں کو سلب کرنے کا خواہشمند ہے۔ ایک ایسا ضابطہ اخلاق جو صرف ٹی وی پر نشر ہونے والے مواد کے انٹرنیٹ پر چلنے کے حوالے سے بنایا گیا تھا، اسے تمام ویڈیو پلیٹ فارمز پر لاگو کرنا مضحکہ خیز ہے۔

یہ پالیسی Netflix جیسے پلیٹ فارمز کی حوصلہ شکنی کرے گی

نیٹ فلکس جیسی OTT سروسز ابھرتے ہوئے سوشل میڈیا کا ایک اہم ترین حصہ ہیں اور یہ پالیسی ایسے پلیٹ فارمز کی نشوونما کو شدید نقصان پہنچائے گی جس سے نہ صرف غیر ملکی کمپنیز یہاں اس شعبے میں سرمایہ کاری سے گریز کریں گی بلکہ لوکل کمپنیاں بھی اس طرف بڑھنے کا نہیں سوچیں گی۔ پیمرا درحقیقت ایک ایسی پالیسی کو ڈیجیٹل میڈیا پر لاگو کرنا چاہتا ہے جو بنیادی طور پر بنائی ہی ٹی وی اور ریڈیو کے لئے گئی تھی۔ یہ پالیسی دستاویز غیر ملکی پلیٹ فارمز کے لئے غیر ضروری اور غیر حقیقی قانونی ارچنیں پیدا کرتی ہے جو کہ ان کی پاکستانی مارکیٹ میں داخلے کی حوصلہ شکنی کرے گی۔ ان کا مقصد Netflix اور Amazon جیسی مزید کمپنیوں کو ملک میں داخل نہ ہونے دینے کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟

لائسنس کی اتنی زیادہ قیمت بڑے چینلوں کو اجارہ داری قائم کرنے میں مدد دے گی

اس وقت پاکستان میں یوٹیوب چینل بنانے کے لئے کوئی لائسنس درکار نہیں۔ جب کہ یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا یا ویڈیو پلیٹ فارمز بھی نیا چینل بنانے کے عوض کوئی رقم وصول نہیں کرتے۔ حکومت کی جانب سے تجویز کردہ پالیسی کے تحت لائسنس کی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر کر دی جائے گی۔ نہ صرف یہ خطیر رقم جمع کرانا عام آدمی کے لئے ممکن نہیں، کم بجٹ والے چینلز بھی یہ رقم afford نہیں کر سکتے۔ ایسی صورت میں بڑے بڑے چینلز ہی ہوں گے جو یہ لائسنس خرید سکیں گے اور ان کی ملکی ڈیجیٹل میڈیا پر مکمل اجارہ داری قائم ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ یہ چینلز پہلے ہی چند مخصوص قوتوں کے اشارے پر کام کرتے ہیں اور اب سوشل میڈیا ہی پر کچھ ایسے پلیٹ فارمز رہ گئے ہیں جو اس قسم کے پریشرز سے نسبتاً آزاد ہیں۔

ایک پالیسی بنا کر اس پر تجاویز مانگنے کا مقصد کیا ہے؟

پیمرا کی جانب سے جو پالیسی دستاویز پیش کی گئی ہے، اس میں صحافیوں اور content producers سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ اور اب ایک پالیسی دستاویز بنا کر تجاویز مانگی گئی ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ حکومت اور پیمرا اس مشاورتی عمل میں کس قدر غیر سنجیدہ ہیں۔ اور کسی بھی صورت میں یہ پالیسی ایک regulator کی طرف سے آنے کا کوئی جواز ہے ہی نہیں۔ یہ پالیسی پارلیمنٹ میں مشاورت کے بعد پیش ہونی چاہیے اور اس قسم کی پالیسی دستاویز کو تجاویز کے لئے پیش کرنا پیمرا کا اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز ہے۔

حکومت کو آزادی اظہار پر مزید قدغنیں لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا اور کل کو جب آپ اپوزیشن میں ہوں گے تو یہی آزاد میڈیا ہوگا جو آپ کی آواز بنے گا۔ اپنے مستقبل کی فکر کیجئے۔ تنقید سے گھبرا کر تنقیدی آوازوں کو بند کرنے کے بجائے اس سے سبق حاصل کر کے اپنا قبلہ درست کرنے کی کوشش کریں۔