نیٹ فلکس کو انڈیا میں مایوسی کا سامنا، زیادہ کامیاب نہ ہو سکی، اپنے اہداف سے بہت دور

نیٹ فلکس کو انڈیا میں مایوسی کا سامنا، زیادہ کامیاب نہ ہو سکی، اپنے اہداف سے بہت دور
فروری 2018 کو نیٹ فلکس کے سی ای او ریڈ ہیسٹنگز نے انڈیا کے دارالحکومت نئی دلی میں ایک انٹرنینشل بزنس اجلاس کے دوران بتایا تھا کہ سستے اور تیزی سے پھیلتے ہوئے انٹرنیٹ کی وجہ سے ان کے اگلے 10 کروڑ صارفین اسی ملک سے ہوں گے۔

تاہم 3 سال کے بعد ہیسٹنگز اتنے پُرامید نہیں۔ گذشتہ ہفتے سرمایہ داری کی ایک کال کے دوران انھوں نے انڈیا میں زیادہ کامیاب نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو چیز ہمیں پریشان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہم انڈیا میں اتنے کامیاب نہیں ہو سکے۔ لیکن ہم یقیناً اپنا پورا زور لگا رہے ہیں۔

نیٹ فلکس نے انڈیا میں صارفین کو اپنی طرف کھینچنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اس نے اپنے پیکج کی قیمتوں میں 60 فیصد کمی تک کی۔ صرف موبائل پر دیکھنے والی سروس کی اب ماہانہ قیمت 149 روپے ہے۔ اس نے 50 سے زیادہ فلمیں بنانے کے لیے 40 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے، جس میں ہندی زبان میں 30 سے زیادہ فلمیں اور شوز بنانا بھی شامل ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 55 لاکھ صارفین کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی سٹریمنگ سروس نیٹ فلکس انڈیا میں اپنے حریفوں سے بہت پیچھے ہے۔ ڈزنی پلس ہوٹ سٹار کے 4.6 کروڑ سبسکرائبرز ہیں جبکہ ایمیازون پرائم ویڈیو کے 1.9 کروڑ۔

نیٹ فلکس کا کہنا ہے کہ 2016 میں اپنی لانچ کے بعد سے اس نے انڈیا میں جو کچھ بھی پروڈیوس کیا ہے اسے اس پر ’فخر‘ ہے۔ کمپنی کے ترجمان کہتے ہیں کہ ’ہم اپنی توجہ اپنے ممبران کو تفریح کے لیے مختلف انواع اور فارمیٹس میں بہترین کہانیاں مہیا کرنے پر مرکوز رکھتے ہیں، جو ڈرامے سے لے کر کامیڈی تک، سنسنی خیز سے رومانس، فکشن سے لے کر غیر فکشن تک ہیں۔‘

نیٹ فلکس نے 2018 میں گینگسٹر سیریز ’سیکریڈ گیمز‘ کے ساتھ اپنی ایک مارکیٹ بنائی تھی۔ اس میں بالی وڈ کے صفِ اول کے اداکار تھے اور اسے انڈیا کے دو بہترین فلم سازوں نے بنایا تھا۔

اس سیریز کو فوری پذیرائی ملی۔ دی اکانومسٹ میگزین نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کی تعریف بھی کی اور لکھا کہ نیٹ فلکس کی پہلی اصلی سیریز نے ثابت کیا ہے کہ ’پرانے سکول کے ہندی فلمی ٹیلنٹ، ہالی وڈ کی اقدار اور سلیکون ویلی کے اربوں ڈالر کے نئے امتزاج‘ کا مستقبل ہے۔

لیکن اس کے بعد پھر ایسا نہیں ہوا جب کہ انڈیا ایک وسیع مارکیٹ ہے۔ 20 کروڑ سے سے زیادہ گھروں میں ٹی وی سیٹ ہیں، اور پے ٹی وی ہر ماہ 4 ڈالر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تفریح کے لئے زیادہ تر صارفین فلموں، کھیلوں اور خبروں کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں۔

صارفین نے سچی کہانیوں پر مبنی شوز کو بھی انہماک سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ ’سکیم 1992‘ جو ایک شاطر سٹاک ٹریڈر پر بنائی گئی ایک سنسنی خیز سیریز تھی، گذشتہ سال سونی ایل آئی وی پر نشر ہوئی اور تیزی سے اس شو کے چرچے ہر طرف ہونے لگے۔

اس کے علاوہ خون گرما دینے والے تھرلرز بھی ہیں جو تشدد اور گالم گلوچ سے بھرے پڑے ہیں، اور جنھیں عام طور پر انڈین اپنے گھر میں خاندان والوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی پر نہیں دیکھتے۔ ابنڈینشیا اینٹرٹینمنٹ کے سی ای او اور معروف پروڈیوسر وکرم ملہوترہ کہتے ہیں کہ ’صارفین پیسے اور وقت کی قدر چاہتے ہیں۔‘