شیخوپورہ؛ احمدی میت کی تدفین رکوانے میں کوئی مذہبی تنظیم ملوث نہیں، پولیس

تھانہ خانقاہ ڈوگراں کے ایس ایچ او ملک اظہر نے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ تمام معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس معاملے میں کس کا ہاتھ تھا اور یہ تعین بھی مشکل ہے کہ کون تحریک لبیک سے تھا اور کون نہیں۔

شیخوپورہ؛ احمدی میت کی تدفین رکوانے میں کوئی مذہبی تنظیم ملوث نہیں، پولیس

پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے مرحوم شہری کی تدفین رکن کے آبائی قبرستان میں نہ ہو سکی جس کے بعد لواحقین نے میت جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ میں رسومات کی ادائیگی کے بعد دفنائی۔ جماعت احمدیہ نے تدفین روکنے کے واقعہ پر افسوس ظاہر کیا اور دعوٰی کیا کہ اس تمام واقعہ کے سیاسی محرکات ہیں اور اسے انتخابی مہم کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ تدفین رکوانے میں کسی مذہبی تنظیم کا ہاتھ نہیں اور معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کیا گیا ہے۔

جماعت احمدیہ کے مطابق تدفین کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے میت کو شیخوپورہ سے سوا 100 کلومیٹر دور ربوہ کے قبرستان میں دفنایا گیا اور پولیس نے بھی ان کی کوئی قانونی دادرسی نہیں کی۔ کسی احمدی کو مقامی قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دیے جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اور جماعت احمدیہ کے مطابق اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق 28 جنوری کو فضل کریم نامی احمدی شہری کی ضلع شیخوپورہ کے علاقے سہوالہ میں وفات ہوئی اور اگلے روز ان کی تدفین کے لیے سہوالہ گاؤں کے مشترکہ قبرستان میں انتظام کیا گیا۔ تدفین کے لیے قبر کی کھدائی اور انتظام گاؤں کے غیر احمدیوں نے ہی کیا۔ گاؤں کی اکثریت تدفین کے انتظامات میں شامل تھی اور کسی نے مخالفت نہیں کی۔

تاہم کچھ دیر بعد گاؤں کے مولوی جن کا تعلق تحریک لبیک سے بتایا گیا ہے، انہوں نے تدفین کی مخالفت کی جس کے بعد مقامی افراد مشتعل ہو گئے۔ انتہا پسندوں  نے قبر کھودنے والے غیر احمد یوں کو بھی مارا اورگالیاں دیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کھدائی کے اوزار اور سلیبیں توڑ کر قبر میں ہی دفنا دیں۔ صورت حال کشیدہ ہونے پر پولیس کی بھی نفری موقع پر پہنچ گئی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جماعت احمدیہ کے مطابق شدت پسندوں نے تدفین میں رکاوٹ پیدا کی اور سہوالہ گاؤں کے قبرستان میں تدفین کو روک دیا گیا۔ ان کے مطابق گاؤں میں قبرستان مشترکہ ہے اور 1 کنال جگہ احمدیوں کے لئے الگ مختص ہے جہاں دو احمدیوں کی قبریں بھی بنی ہوئی ہیں۔ فضل کریم کے ورثا تمام صورت حال کے بعد میت کو ربوہ لئے گئے جہاں ان کی میت کو دفن کر دیا گیا۔

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے اس قبرستان میں 40، 50 برس پہلے کسی احمدی کی تدفین ہوئی ہو تاہم جماعت احمدیہ کا مؤقف ہے کہ پہلے بھی قبرستان میں احمدیوں کی تدفین ہو چکی ہے۔

جماعت احمدیہ نے مذکورہ واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کی تصاویر کی مسلسل تشہیر کی جا رہی ہے اور ایک مذہبی تنظیم اسے اپنی انتخابی مہم کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ جماعت احمدیہ کے مطابق ریاست اپنی بنیادی ذمہ داری پوری کرے اور کمزور طبقے کو قانونی امداد مہیا کرے۔

دوسری جانب تھانہ خانقاہ ڈوگراں کے ایس ایچ او ملک اظہر نے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ تمام معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا ہے۔ پولیس افسر ملک اظہر کے بقول یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس معاملے میں کس کا ہاتھ تھا۔ ان کے مطابق یہ تعین بھی مشکل ہے کہ کون تحریک لبیک سے تھا اور کون نہیں۔ پولیس نے مذہبی تنظیم کے اس واقعہ میں ملوث ہونے کی تردید کی تاہم جماعت احمدیہ پولیس کے مؤقف سے بالکل متفق نہیں ہے۔

منیر باجوہ صحافی ہیں اور مختلف موضوعات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔ وہ نیا دور میڈیا کی رپورٹنگ ٹیم کا حصہ ہیں۔