وائس آف امریکہ کے سروے کے مطابق ملک کے نصف نوجوانوں کا خیال ہے کہ 8 فروری کے عام انتخابات شفاف ہوں گے تاہم وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ آنے والے انتخابات سے ان کی روزمرہ کی زندگی متاثر نہیں ہوگی۔ پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت نے فوج پر اعتماد کا اظہار کیا ہے جبکہ ملک کے 15 فیصد نوجوان کا کہنا ہے کہ وہ فوج پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے۔
پاکستان میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے الیکشن کے لیے پانچ کروڑ 68 لاکھ سے زائد نوجوان ووٹ دینے کے اہل ہیں۔
یہ تعداد پاکستان کے مجموعی ووٹرز کا تقریباً 44 فی صد ہے۔
بین الاقوامی ادارے اپسوس پاکستان نے جنوری 2024 میں امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ نے آئندہ انتخابات میں نوجوانوں کے ووٹنگ کے رجحان، ملکی مسائل اور قومی اداروں پر ان کے اعتماد کے بارے میں ایک سروے کرایا ہے۔
سروے کا سامپل سائز 2,050 جواب دہندگان تھا جبکہ یہ سروے 3 جنوری سے 12 جنوری تک 18 سے 34 سال کی عمر کے نوجوانوں میں کیا گیا۔ سروے میں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اور تمام صوبوں کے شہری اور دیہی علاقوں کے رہائشی اور مختلف معاشی و سماجی پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی رائے شامل ہے۔
وائس آف امریکہ نے یہ سروے میں 18 سے 34 برس کے نوجوانوں سے یہ سوال بھی کیا گیا تھا کہ انہیں کس قومی ادارے پر کتنا اعتماد ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
نوجوانوں کی 74 فیصد اکثریت نے فوج کو سب سے قابلِ اعتماد ادارہ قرار دیا۔ فوج پر اعتماد کرنے والوں کی شرح شہری اور دیہی علاقوں میں تقریباً برابر ہے جہاں ہر 4 میں سے 2 نوجوانوں نے فوج پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
سروے کے نتائج کے مطابق عام تاثر کے برعکس بلوچستان میں بھی فوج پر مکمل اعتماد کرنے والوں کی شرح 64 فیصد ہے۔خیبرپختونخوا میں 55 فیصد، سندھ میں 54 جبکہ پنجاب میں 51 فیصد نوجوان فوج پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں فوج پر مکمل اعتماد کرنے والے نوجوانوں کی شرح کم ہے۔
فوج پر بالکل بھی اعتماد نہ کرنے والوں کی شرح سب سے زیادہ 23 فیصد اسلام آباد میں ہے۔ پنجاب میں یہ شرح 15 فیصد، سندھ میں تقریباً 17 فیصد، خیبر پختونخوا میں 11 فیصد جب کہ بلوچستان میں 12 فیصد ہے۔
فوج پر اعتماد کرنے والوں کی شرح شہری اور دیہی علاقوں میں تقریباً برابر ہے جہاں ہر چار میں سے دو نوجوانوں نے فوج پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
سروے کے مطابق 59 فیصد مرد جب کہ 46 فیصد خواتین فوج پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ تقریباً 13 فیصد مردوں اور 16 فیصد خواتین نے کہا کہ انہیں فوج پر بالکل بھی اعتماد نہیں۔
اس کے علاوہ 58 فیصد سپریم کورٹ پر، 54 فیصد میڈیا پر، 50 فیصد سیاسی جماعتوں پر، 49 فیصد صوبائی حکومت، پارلیمان اور وفاقی حکومت پر47 فیصد اور 42 فیصد الیکشن کمیشن پر اعتماد رکھتے ہیں۔
سروے کے مطابق ہر چار میں سے 3 نوجوانوں نے یقین کا اظہار کیا ہے کہ انتخابات ملک کو درست سمت کی جانب گامزن کریں گے۔ ہر 3 میں سے 2 کو امید ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے۔ 48 فیصد نوجوان سمجھتے ہیں کہ آنے والے انتخابات سے ان کی روزمرہ کی زندگی متاثر نہیں ہوگی۔
سروے کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد نوجوان سمجھتے ہیں کہ سیاسی رہنما ان کے مسائل یا نوجوانوں کی ترجیحات کو نہیں سمجھتے۔ جبکہ40 فیصد کا کہنا ہے کہ سیاسی رہنما نوجواںوں کی ترجیحات کو سمجھتےہیں۔
53 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ پارٹی میرے لیے اپنے نامزد امیدوار سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔47 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ انکے لیے امیدوار اس پارٹی سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں جس سے ان کا تعلق ہے۔
عام تاثر کے برعکس سروے میں تقریباً 65 فی صد نوجوانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ انتخابات صاف شفاف ہوں گے۔اکثر نوجوانوں کے خیال میں پاکستان کا کوئی ادارہ بھی8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔
لیکن جو یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں کسی ادارے کی مداخلت ممکن ہے، ان میں سے68 فیصد کے نزدیک فوج ایسا کرسکتی ہے۔ سروے میں 68 فیصد نے انتخابات میں کسی ادارے کی مداخلت کو ناممکن کہا۔ البتہ بیرونی طاقتوں کی جانب سے الیکشن میں مداخلت کے سوال پر27 فیصد نے امریکا جب کہ7 فیصد نے بھارت پر شک کا اظہار کیا۔
سروے میں شامل 70 فی صد نوجوانوں نے کہا کہ وہ 8 فروری کے الیکشن میں ووٹ ڈالیں گے۔ 78 فیصد کا کہنا تھا کہ اسی جماعت کو ووٹ دیں گے جسے 2018 میں دیا تھا۔ ہر پانچ میں سے ایک نوجوان اس بار کسی دوسری جماعت کو آزمانا چاہتا ہے۔
سروے کے مطابق ملک کے تقریباً 17 فی صد نوجوانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ کبھی ووٹ دینا نہیں چاہتے۔ پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت نے مہنگائی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ جسے وہ ووٹ دیتے ہوئے پیشِ نظر رکھیں گے۔ سروے میں 70فی صد نوجوانوں نے مہنگائی کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیا۔
نوجوانوں کی بڑی اکثریت نے ووٹ دیتے ہوئے مذہبی آزادی اور آزادیٔ اظہارِ رائے کو بھی اہمیت دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔