پاکستان بھر کی طرح حیدرآباد کی ٹرانس جینڈر کمیونٹی بھی بے شمار مسائل کا شکار ہے جن میں بنیادی حقوق کا نہ ہونا، تفریق، ہراساں کرنا، بے روزگاری، جہالت، ہسپتالوں میں تفریق کرنے والا رویہ، بے گھری اور سماجی قبولیت نہ ہونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ قومی شناختی کارڈ یا ایکس کارڈ کا اجرا اور ووٹ رجسٹریشن اضافی مسائل ہیں۔ حیدرآباد کی ٹرانس جینڈر آبادی تقریباً 1000 کے قریب بتائی جاتی ہے۔ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کا دعویٰ ہے کہ مردم شماری میں ان کی درست تعداد نہیں بتائی جاتی اور ان کو حقیقی تعداد سے بہت کم بتایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی حیدرآباد میں ٹوٹل آبادی کے لحاظ سے شرح بہت کم دکھائی جاتی ہے۔
ثنا خان حیدرآباد میں میونسپل کمیونٹی کی ممبر ہیں۔ ان کے مطابق حیدرآباد میں ٹرانس جینڈر پرسنز کی تعداد 1000 کے قریب ہے جن میں سے صرف 47 لوگوں کے ایکس کارڈ بنے ہیں اور صرف 3 کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹر کیا گیا ہے۔ ثنا سے جب معلوم کیا گیا کہ کیا کبھی کوئی امیدوار انتخابی مہم کے سلسلے میں آپ کی کمیونٹی میں آئے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی امیدوار اپنی الیکشن مہم کے لئے ہماری کمیونٹی تک آیا ہو یا ہمارے مسائل جاننے کی کوشش کی ہو۔ عوامی نمائندوں کی جانب سے ہمارے مطالبات کبھی نہیں سنے جاتے۔
اس سلسلے میں جب نامزد امیدواروں سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے الیکشن مہم کے لیے وہ کبھی بھی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے پاس نہیں گئے کیونکہ ان کے حلقے میں ایسی کوئی کمیونٹی موجود نہیں تھی لیکن اب جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حیدرآباد میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے افراد سبزی منڈی، سٹیشن روڈ، لطیف آباد، حیدر چوک اور قاسم آباد میں رہتے ہیں اور یہ علاقے قومی اسمبلی کی 3 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 6 نشستوں کے کسی نہ کسی علاقے میں آتے ہیں۔ لیکن امیدواروں کا یہی کہنا ہے کہ ان کے حلقے میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی نہیں پائی جاتی۔
ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی مونا خان سے جب آنے والی حکومت سے متعلق پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو سکول، کالج کے لیول پر نصاب میں ہمارے بارے میں کوئی سبق شامل کیا جائے تا کہ لوگ ہمارے وجود کو قبول کریں، ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھنا بند کریں اور ہمیں عزت سے جینے کا حق مل سکے۔ ہمارے بارے میں لوگوں کو بتایا جائے اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ ہمارے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔
معاشرتی اقدار کی وجہ سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو ہمیشہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک تو یہ کہ خاندان انہیں سماجی دباؤ کی وجہ سے قبول نہیں کرتے، دوسرا تعلیمی اداروں میں داخلہ مل بھی جائے تو وہاں کے روایتی طریقے انہیں اپنی تعلیم نہیں مکمل کرنے دیتے۔ زیادہ تر خواجہ سرا اپنے خاندان سے الگ ہو کر اپنی کمیونٹی میں ہی رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں اور بے روزگار ہونے کی وجہ سے ان کے لیے کرایہ ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم اور ہنر سے محروم ہونے کی وجہ سے انہیں نوکری کے مواقع میسر نہیں آتے۔ ان سب چیزوں کی حقیقت اور معاشرتی رویوں کی وجہ سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی نہ چاہتے ہوئے بھی ناچ گانے، بھیک مانگنے اور جنسی کاروبار میں ملوث ہو جاتی ہے۔
معاشرتی تشدد کے علاوہ صحت کی سہولتوں کے حصول میں بھی انہیں امتیازی سلوک کا شکار بنایا جاتا ہے اور انہیں ایک سے بڑھ کر ایک چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نازو (فرضی نام) نامی ٹرانس جینڈر کا کہنا ہے کہ 'اگر ہم میں سے کوئی بیمار پڑ جائے یا کوئی ایمرجنسی ہو جائے تو ہسپتال کے عملے کا برتاؤ ہمارے ساتھ تفریق پر مبنی ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے ہمیں چھوت کی بیماری ہو۔ ہمیں ایڈز کے طعنے دیے جاتے ہیں'۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ان کا مطالبہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے متعلق ہسپتال کے عملے کی تربیت کی جائے۔ اس کے علاوہ ہمارے لیے الگ وارڈز بنائے جائیں۔ دوائیں اور پرچیاں لینے کے لیے ہماری الگ قطاریں بنوائی جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین کے وارڈز اور قطاروں میں ہمیں رکھا نہیں جاتا کیونکہ وہ ہم سے ڈرتی ہیں اور مردوں کے وارڈز اور قطاروں میں ہمیں ایسے گھورا جاتا ہے کہ ہم خود کو بہت بے چین اور غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ ان رویوں کی وجہ سے ہم ہسپتال جانے سے بچتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے اکثر ساتھیوں کی حالت تشویش ناک حد تک خراب ہو جاتی ہے۔
ثنا خان کا کہنا تھا کہ معمر ٹرانس جینڈرز کے لیے حکومت کی جانب سے وظیفہ مقرر ہونا چاہیے کیونکہ زیادہ تر ٹرانس جینڈر اپنے خاندانوں سے الگ رہتے ہیں اور بزرگ ہونے کی وجہ سے یا پھر بیمار ہونے کی وجہ سے اپنی کفالت نہیں کر پاتے۔ اس لئے ان کے لئے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے۔
فہمیدہ (فرضی نام) نامی خواجہ سرا کے مطابق ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہراسانی کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ اور ایک خوبصورت خوش شکل عورت ساتھ کھڑے ہوں تب بھی مرد انہیں دیکھتے ہیں اور آوازیں کستے ہیں، اشارے کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ جانوروں سے بھی برا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ سارا مسئلہ سوچ کی وجہ سے ہے۔ جب ریاست ہماری موجودگی کو عملی طور پر قبول کرے گی، لوگوں کو احساس دلائے گی، ٹرانس جینڈرز کے لیے حفاظتی اقدامات پر عمل کر کے مجرموں کو سزا دینا شروع کرے گی تبھی لوگوں کے رویوں میں مثبت تبدیلی آئے گی۔
سیاسی عمل میں شمولیت اور ووٹر رجسٹریشن کے حوالے سے بھی 2024 کے انتخابات ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لیے چیلنجنگ قرار دیے جا رہے ہیں۔ ٹرانس جینڈر ایکٹیوسٹ اور لوکل باڈیز الیکشن میں کراچی میونسپل کارپوریشن کی رکن شہزادی رائے کے مطابق 'اس بار ٹرانس جینڈرز کی ووٹر رجسٹریشن ہوئی ہی نہیں۔ ریاست کی جانب سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو خود انتخابات اور سیاست سے دور رکھا جا رہا ہے۔ شریعت کورٹ نے اپنے دائرہ کار سے باہر جا کر نادرا کو ایک خط کے ذریعے حکم دیا تھا کہ ٹرانس جینڈرز کے کارڈ بلاک کر دیں جس پر نادرا نے عمل کیا اور اس وجہ سے ووٹر رجسٹریشن کا عمل 2024 کے انتخابات کے لیے نہ ہو سکا'۔
شہزادی رائے کا مزید کہنا تھا کہ اس سے پہلے انتخابات میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے لوگ آگے بھی آئے ہیں اور اپنے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرواتے رہے ہیں۔ 2013 میں سکھر سے تعلق رکھنے والی صنم فقیر نے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور 32 امیدواروں میں سے چوتھے نمبر پر آئی تھیں۔
جہاں تک حیدرآباد میں خواجہ سراؤں کے ووٹ رجسٹریشن اور ووٹ کاسٹ کرنے کی بات ہے تو ثنا خان کا کہنا ہے کہ اکثریت کے ایکس کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے شناختی کارڈز پر ہی ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔
ایک مطالبہ یہ بھی کیا گیا کہ پولنگ ڈے پر ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لیے بھی الگ قطاریں اور پولنگ بوتھ بنائے جائیں تاکہ وہ ہراساں ہوئے بغیر اپنا قومی فریضہ سر انجام دے سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اپنے عملے کو خصوصی طور پر ٹرانس جینڈر فرینڈلی رویے کے حوالے سے تربیت دے اور انہیں احساس دلائے تا کہ ہم بغیر کسی پریشانی کے دوسرے پاکستانی شہریوں کی طرح ووٹ کاسٹ کر سکیں۔
اگر انتخابات کے دن الیکشن کمیشن کی جانب سے خواجہ سراؤں کے لیے خصوصی انتظامات کی بات کی جائے تو ووٹ کی اہمیت کی آگاہی مہم سے لے کر مخصوص خصوصی قطار تک ہر قدم پر خواجہ سرا کمیونٹی کے لیے اقدامات کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے لیکن عجب بات یہ ہے کہ نہ 2024 کے انتخابات کے لیے ان کی ووٹنگ رجسٹریشن ہوئی ہے، نہ ہی اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پہ کوئی ڈیٹا موجود ہے۔
ثنا خان کے مطابق، 'جب سیاسی نمائندگی کی بات آتی ہے تو اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی ابھی 9 مخصوص نشستیں لوکل باڈیز گورنمنٹ میں حیدرآباد سے خالی ہیں کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی اور سیاسی جماعت نے ہمیں پارٹی میں جگہ دی اور نا ہی لوکل باڈیز الیکشن کے لیے نامزد کیا'۔
2024 کے انتخابات میں حیدرآباد کی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ اقلیتی برادری اور خواتین کی مخصوص نشستوں کی طرح ان کی کمیونٹی کے لیے بھی اسمبلی میں نشستیں مخصوص کی جانی چاہئیں کیونکہ جب تک ہم خود اسمبلی جا کر اپنے لیے بات نہیں کریں گے تب تک ہمارے مسائل حل ہوں گے اور نا ہی ہمیں بنیادی حقوق ملیں گے۔