Get Alerts

بار بار وزیر خزانہ تبدیل کرنا معاشی بدحالی دور کرنے کا مؤثر حل نہیں

بار بار وزیر خزانہ تبدیل کرنا معاشی بدحالی دور کرنے کا مؤثر حل نہیں
پاکستان میں اقتصادیات کے شعبے میں ریسرچ کی شدید کمی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ملک میں اقتصادی ماہرین کی بھی کمی ہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے اس کے لیے سب سے مشکل کام وزیر خزانہ کی تلاش ہوتا ہے۔ اگر کوئی وزیر خزانہ مل بھی جائے تو حکومت اور عوام دونوں اس سے جلد مایوس ہوتے نظر آتے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں اسد عمر کو بڑی امیدوں اور خوش نما دعوؤں کے ساتھ وزیر خزانہ لگایا گیا تھا مگر کچھ ہی عرصے میں ان کو اور انہیں لگانے والوں کو ادراک ہو گیا کہ یہ ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔ ان کے بعد پیپلزپارٹی کے دور کے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو آزمانے کا فیصلہ کیا گیا۔ آگے چل کر عبدالحفیظ شیخ کو بھی اس عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی حماد اظہر کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا۔ جب معاشی حالات زیادہ خراب ہونے لگے تو تحریک انصاف کی حکومت نے پیپلزپارٹی کے دور کے ہی ایک اور وزیر خزانہ شوکت ترین کی خدمات سے استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے باوجود معیشت کی حالت بہتر نہ ہو سکی۔

موجودہ حکومت میں مسلم لیگ (ن) نے مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ لگایا۔ انہوں نے خاصی محنت اور لگن سے ملکی معیشت پہ کام کرنے کی کوشش کی مگر حکومت کو اپنے دیرینہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی یاد ستانے لگی۔ اسحاق ڈار کے اوپر کیسز ہونے کے باوجود ان کو معیشت میں معجزات دکھانے کے لیے خاص طور پر پاکستان لایا گیا۔ مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ لگایا گیا جس سے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی کافی توقعات تھیں کہ ملک کی گھمبیر معاشی صورت حال میں کوئی بہتری آ جائے گی۔ حسب معمول اسحاق ڈار بھی اپنا کوئی جادو نہ جگا سکے۔ پاکستان کے اوپر ڈیفالٹ ہونے کے سایے منڈلا رہے ہیں۔ ڈالر کی اڑان نیچے نہیں آ رہی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔

پاکستان میں معیشت کے ساتھ جڑے کیا مسائل ہیں؟ ہمارے پاس اچھے ماہر معیشت کی کمی ہے یا پھر ہمارے مسائل ایسے ہیں کہ ان کو کوئی بھی ماہرمعیشت نہیں سلجھا سکتا؟ اس میں دونوں باتیں ہیں، پاکستان میں معاشی امور سے متعلق اچھے ماہرین کی کمی بھی ہے اور ہمارے معاشی مسائل بھی ایسے ہیں کہ ان کو کوئی بھی وزیر خزانہ حل نہیں کر سکتا۔ تو پھر پاکستان کے معاشی مسائل کا حل کیا ہے؟

پاکستان میں قومی سطح پر جلد بازی اور فوری آرام کی ذہنیت پائی جاتی ہے۔ معاشی مسائل کے حل کے لیے تو ہماری قوم بہت جلد نتائج کی توقع کرتی ہے۔ یہ توقعات زیادہ تر غیر منطقی ہوتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ معاشی استحکام لانے اور معیشت کو درست سمت پر گامزن کرنے کے لیے عشروں پر محیط پالیسیوں کوتسلسل کے ساتھ چلانا پڑتا ہے۔ چین کی ہی مثال لے لیجئے۔ انہوں نے 1970 کی دہائی میں ایک اکنامک پالیسی کا آغاز کیا اور بین الاقوامی آزاد تجارت کے اصولوں کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔ چین کے اندر اس کے بعد کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر چین نے اپنی وضع کردہ معاشی پالیسی کو ترک نہیں کیا۔ اسی وجہ سے چین نے اپنی قوم کو نہ صرف غربت سے نکالا بلکہ چین آج دنیا کی ایک بہترین معیشت ہے۔

امریکہ 1930 کے عشرے میں شدید معاشی بحران کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ امریکی انتظامیہ نے بحران سے نکلنے کے لیے ایک اکنامک پالیسی وضع کی جس کا تسلسل برقرار رکھا گیا۔ امریکہ میں کوئی بھی صدر دو سے زیادہ مرتبہ صدر کے عہدے پر نہیں رہ سکتا مگر صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ 1933 سے لے کر 1945 تک مسلسل چار ٹرم کے لیے امریکہ کے صدر رہے تاکہ اکنامک پالیسی کا تسلسل برقرار رہے اور ملک اس شدید معاشی بد حالی سے نکل سکے۔ امریکہ نہ صرف معاشی طور پر مضبوط ہوا بلکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جنگ سے تباہ حال یورپ کو امداد دینے کے ساتھ ساتھ دنیا کی حکمرانی بھی سنبھالنے کی پوزیشن میں آ گیا۔

پاکستان کے معاشی حالات کا حل بار بار وزیر خزانہ بدلنے میں نہیں ہے بلکہ ایک مؤثر معاشی پالیسی کی تشکیل ہے جس کے اوپر مسلسل عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی معیشت کی حالت اس مریض کی طرح ہو گئی ہے جس کو ایک اتائی ڈاکٹر سٹیرائڈ کا ٹیکہ لگاتا ہے تو وہ خود کو صحت مند محسوس کرنے لگتا ہے۔ پاکستان میں جب بھی معاشی حالات خراب ہوتے ہیں تو عوام اس ٹیکے کے انتظار میں ہوتے ہیں جو فوری سب حالات ٹھیک کر دے۔ اسی وجہ سے بار بار وزیر خزانہ تبدیل کیے جاتے ہیں کہ شاید کسی کے پاس وہ ٹیکہ ہو جس کو لگانے سے فوری ریلیف مل جائے۔ ان حالات میں ٹیکہ ہمیشہ سے امریکی امداد کی صورت میں آتا تھا یا پھر امریکہ کی سفارش پر آئی ایم ایف کا کیپسول ملتا تھا۔ موجودہ دور میں امریکی ٹیکہ بھی دستیاب نہیں ہے اور آئی ایم ایف کا کیپسول بھی نہیں مل رہا اس لیے ملک میں ڈیفالٹ کے خطرے کی دہائی مچی ہوئی ہے۔

پاکستان اگر اپنے معاشی حالات سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہے تو اس کو ہنگامی بنیادوں پر ایک معاشی پالیسی لانا ہو گی اور اس کو سیاسی شعبدہ بازیوں سے دور رکھنا ہو گا۔ سیاسی حالات جیسے بھی ہوں اور جس بھی سیاسی پارٹی کی حکومت ہو اس پالیسی میں کوئی تبدیلی یا رکاوٹ نہیں آنی چاہئیے۔ پاکستان کے معاشی مسائل ابتری کی جس نہج پر پہنچ چکے ہیں ان کو کوئی ایک سیاسی پارٹی اور فرد واحد ٹھیک نہیں کر سکتا اس کے لیے اجتماعی اور قومی معاشی پالیسی کی تشکیل ناگزیر ہے۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔