بیلے، چوپال اور ترنجن، ماہیے ٹپے اور لوک گیت، لہلہاتی ہوئی فصلیں، رومانوی داستانوں کی خاص لَے اور ترنم یہ ہے وہ پنجاب جس کی گہری میٹھی دل میں اتر جانے والی زبان پنجابی میں لکھی جانی والی سنہری تاریخ اور داستانیں اور ان کو سنانے والے شاعر ادیب اور رازداں جنہوں نے خود کو ایسی زبان کے لیے وقف رکھا جو وقت کے ساتھ ساتھ ’مصنوعی ثقافت‘ کے بوجھ تلے دب گئی۔ مگر اس کا اظہار اور کردار کسی طور دب نہ سکا۔
سر پر گھنگھریالے سفید بالوں کا چھتہ، چہرے کے مہاتمائی نقوش، عمر ستر برس، چال میں جواں سال تمکنت اور آواز میں ٹھہرائو۔دلیل، منطق، فلسفہ، ادب، تاریخ، موسیقی اور شاعری کے بارے میں اس کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ سماعتوں سے ٹکراتے ہیں تو خوش گوار حیرت کا احساس ہوتا ہے۔
کتابوں کے صفحات الٹتے جاتے تھے اور اکرم شیخ اپنا نقطہ نظر بیان کر دیتے ہیں۔ وہ ایک روشن خیال فکر کے مالک انسان ہیں۔ بسااوقات مجھے یہ محسوس ہوتا کہ کوئی پروہت اپنے معبد سے باہر آتا ہے اور اپنے پیروکاروں سے ہاتھ اٹھا کر ان کی خیریت دریافت کرتا ہے اور ان کے سوالات کاجواب دیتا ہے۔ ’’بارش کب ہو گی‘‘ زندگی کی بے ڈھنگی چال کب درست ہو گی آخر مسئلہ کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کبھی کبھار وہ پریس کلب کے صحن میں واقع شہتوت کے درخت کے نیچے بیٹھا ایک ہاتھ میں سلگتا ہوا سگریٹ اور دوسرے ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے ہوئے دوستوں اور احباب سے محو گفتگو ہوتا ہے اور کبھی کبھار میرے بارے کسی سے پوچھ لیتا ہے۔ ’’اوہنوں ویکھیا جے آیا اے کہ نئیں‘‘
میں نے ایک دن سوچا کہ اپنے اس دیرینہ دوست اور پنجابی کے نامور دانشور کو اپنے الفاظ میں قلم بند کروں۔ سو میں نے اس کے سامنے اپنا عندیہ رکھا تو اکرم شیخ نے حامی بھر لی سو مکالمہ شروع ہو گیا۔ درمیان میں کبھی کبھار مرزا رضوان اپنی موسیقی کے ساتھ حملہ آور ہوتا اور ہم اس سے بچ بچا کر یہ کام کرتے رہے۔ درحقیقت کوئی بھی شخصیت بالخصوص جس کے کام یا فن کی بہت ساری جہتیں ہوں ریشم کے اس تھا ن کی طرح ہوتی ہے۔ جس کی تہیں لگاتے ہوئے وہ کھل کھل جاتا ہے۔ سمیٹا نہیں جاتا۔ میں نے بھی اپنی مقدور بھر کوشش کی اور اکرم شیخ کے فن و شخصیت کی تصویر کے رنگ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
ادب، آرٹ اور ثقافت کی نامور شخصیات کو جن ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا جاتا ہے، وہ ان کی نمایاں اور امتیازی خدمات کے باوصف انہیں ملتے ہیں، مگر کچھ ایسی شخصیات بھی ہیں جن کے لیے ایوارڈز چشم براہ ہوتے ہیں کہ یہ درحقیقت ان ایوارڈز کی پذیرائی ہے کہ ان کے ساتھ ایسی شخصیات کے نام منسوب ہوتے ہیں___نامور دانشور، محقق، شاعر اور پنجابی سوجھوان اکرم شیخ ایک ایسی ہی شخصیت ہیں، جنہیں میں گذشتہ پچیس برس سے جانتا ہوں۔ میری جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو اس وقت ہم ریلے ہائوس نیلا گنبد کے اپرفلور پر واقع ایک جریدے ماہنامہ ’’زنجیر‘‘ میں کام کرتے تھے۔ جس کے ایڈیٹر حسن نثار تھے۔ ضیاء الحق کی آمریت کا دور جاری تھا۔ پیپلزپارٹی مشعل جمہوریت لے کر نکلی ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر نثار ہو چکے تھے۔ ’’زنجیر‘‘ ضیاء کی آمریت کے خلاف کھلا اعلان جنگ تھا۔ ایڈیٹر حسن نثار کی ہمیں تنبیہہ تھی کہ آپ کی ہر تحریر پر مقدمات بننے چاہئیں اور آپ کو نشانہ بننا چاہیے۔ یہی آپ کی عمدہ تحریر کا کمال ہو گا۔ تب آتش جواں تھا۔ میں نے لاہور کی ہیرامنڈی کے بارے میں سترہ صفحات کا ایک تحقیقی فیچر لکھا۔ جس پر حسن نثار نے بہت عمدہ توصیفی نوٹ لکھا اور ’’زنجیر‘‘ کا سرورق اسی فیچر کے حوالے سے بنایا گیا۔ طاہر اصغر کے بدنام قلم سے ایک نامور فیچر’’یہ کوچے یہ نیلام گھر‘‘ جب شائع ہوا تو ہیرامنڈی کے ایک کنجر نے ’توہین عزت‘ کا کیس دائر کر دیا کیونکہ اس کے کوٹھی خانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
حسن نثار پھڑک اٹھا۔ وہ اپنے دیرینہ دوست اعزاز احسن کے پاس گیا اور عدالت سے آئے نوٹس کی بابت انہیں بتایا۔ اعتزاز احسن نے اپنے ایک معاون ندیم شبلی کو اس کیس کی پیروی کرنے کے لیے کہا۔ میں، حسن نثار اور پبلشرمقبول احمد کے ساتھ عدالت میں صبح دم حاضر تھا۔ اس کے بعد کی کہانی حسن نثار کی افتار طبع کی داستاں ہے۔ کیس دائر کرنے والے کنجر نے کیس واپس لیا اور معافی مانگی جو حسن نثار نے کس صورت دی یہ ایک صیغہ راز ہے۔ ’’زنجیر‘‘ میں حسن نثار لفظ لفظ کی نوک پلک دیکھتا اور بحث کیا کرتا تھا۔ اکرم شیخ نے ایک دفعہ حسن نثار کی غیرموجودگی میں اس کا کالم ’’منچا نے کہا‘‘ لکھ دیا کیونکہ پرچہ لیٹ ہو رہا تھا۔ یہ کچھ دانش مندانہ اقوال ہوا کرتے تھے۔ جب میگزین چھپ کر آیا تو حسن نثار نے اکرم شیخ کا لکھا ہوا اپنے نام سے کالم دیکھا تو اپنی عینک کے شیشوں سے اسے حیرت سے جھانکتے ہوئے دیکھا اورکہا ’’ایہہ میں تے نئیں لخیا پر ہے تے میرا ای‘‘
تب مجھے یہ احساس نہیں تھاکہ اکرم شیخ کے دل و دماغ میں پنجابی زبان و ادب کا اکھوا پھوٹ چکا ہے جو آنے والے دنوں میں یہ ایک تناور درخت بن جائے گا۔ میں اور اکرم شیخ رات آٹھ بجے کے بعد کے دوست نہیں تھے۔ شب کا یارانہ طارق مسعود کے ساتھ تھا جو ’’زنجیر‘‘ کے فلم سیکشن کا کرتا دھرتا تھا اور خود بھی وحید مراد کی پرچھائیں بنا ہوا تھا اور آج بھی ہے۔
ایک بار اکرم شیخ موسیقی کے بارے میں بتا رہے تھے کہ ’’قصور گھرانہ سے تعلق رکھنے والوں میں برصغیر کے سب سے بڑے گائیک بڑے غلام علی خاں تھے۔ ان کے بعد برکت علی خان، چھوٹے غلام علی خان، مانڈو خان اور پھر ملکہ ترنم نورجہاں کا نام اور مقام ہے۔ آج کے گلوکار سجاد علی کا بھی قصور گھرانے سے ہی تعلق بنتا ہے۔ پٹیالہ گھرانہ میں امانت علی خان (انشا جی اٹھو اب کوچ کرو)فتح علی خان، حامد علی خان،اسد امانت علی خان(عمراں لنگھیاں پبا بھار) شفقت امانت ہیں۔ شام چوراسی گھرانے سے تعلق رکھنے والوں میں سلامت علی خان، نزاکت علی خان، ذاکر علی خان، شفقت سلامت، حسین بخش گلو تھے۔مغل بادشاہ اکبر کے بڑے گائیک تان سین قصور میں مقیم رہے۔ پٹیالہ گھرانے کی بنیاد رکھنے والی موڈھی دوکھی بائی تھی جو مہاراجہ پٹیالہ کی خاص گائیکہ تھی۔ پٹیالہ گھرانے کا خاص انداز ’ناکا‘ یعنی ناک سے گاتے ہیں جو خواتین سے مخصوص ہے۔ رگی یعنی گلے سے گانے والے برکت علی خان تھے۔ قصور گھرانہ کی نکھاد یعنی نکھار کر ادائیگی ایک خاص انداز ہے۔ غزل گائیک غلام علی اوپر والے سُر میں کم کم نغمہ سرا ہوتے ہیں ہمیشہ نچلے سُروں میں رہتے ہیں۔
اکرم شیخ للیانی سے تعلق رکھتے ہیں جو قصور کا قریبی گائوں ہے اور اپنی خاص تاریخ رکھتا ہے۔ للیانی کا نام شاید اب مصطفی آباد رکھ دیا گیا ہے۔ علاقوں کے نام بدل کر انہیں اسلامائز کیا گیا ہے اور یہ ضیاء الحق کی آمریت کے دنوں میں ہوا۔ جیسے کرشن نگر’اسلام پورہ‘ ہو گیا اور سنت نگر ’سُنت نگر‘ بن گیا۔ اسی طرح لاہور کا علاقہ دھرم پورہ مصطفی آباد ہو چکا ہے۔ جن علاقوں کے نام نہیں بدلے گئے اس کی کسر مال روڈ کے اطراف درختوں پر انبیائے اکرام کے نام لکھ کر نکال لی گئی۔ گویا درخت بھی ’مشرف بہ اسلام‘ ہو گئے۔ حسن نثار کو شکوہ رہتا ہے کہ لائلپور کو فیصل آباد کیوں کہا جاتاہے وہ اسی شہر کے رہنے والے ہیں۔
اکرم شیخ کا کہنا ہے کہ پٹوار(اراضی کی پیمائش کا علم) کی تربیت کے لیے للیانی کے علاقے کا مشاہدہ ازبس ضروری سمجھا جاتاہے۔ پنجاب کا پٹوار سسٹم راجہ ٹوڈرمل نے ترتیب دیا تھا۔ زمینوں کا سرکاری ریکارڈ اکبر کے اس نورتن نے پہلی بار بنایا تھا۔ جسے بعدازاں انگریزوں نے مزید بہتر بنایا۔ فرید الدین بھٹی جو دُلا بھٹی کے والد تھے، اس نے اس پٹوار سسٹم کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اسے پھانسی دے دی گئی۔ بعدازاں دُلا بھٹی نے بغاوت کا علم اٹھایا تھا۔ درحقیقت یہ منگولوں کی روایت تھی۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان نے قبائلی نظام کو پروان چڑھایا۔ چنگیز خان سے پہلے کوئی خان نہیں تھا۔
اکرم شیخ نے اپنے اسی قصبے کے بارے میں مزید بتایا ’’للیانی قصور کا بہت پرانا قصبہ ہے۔ دوسرا قصبہ کھڈیاں تیسرا چونیاں ہے جہاں قدیم آبادیوں کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔ للیانی سکھوں کا قصبہ تھا۔ جہاں بھلر سکھ آباد تھے جو یہاں کے مالک بھی تھے۔ یہ ایک ٹبہ تھا، جس پر ایک مندر بنا ہوا تھا۔ روایت یہ ہے کہ ایک راجا جو زخمی حالت میں تھا، یہاں سے گزرا ۔اس مندر کی ایک داسی نے اس راجا کی خدمت کی اور اس کے زخموں پر مرہم رکھا۔ اس داسی کا نام لالی تھا۔ راجا نے یہاں کی زمین کا بڑا حصہ لالی کو دے دیا۔ وہ لالی رانی ہو گئی۔ یہ قصبہ اسی کے نام کے حوالے سے للیانی ہو گیا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں رنجیت سنگھ کی بیوہ رانی جنداں اور انگریزوں کے درمیان 1857ء میں ایک معاہدہ بھی ہوا تھا۔‘‘
اکرم شیخ1948ء میں للیانی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سردار محمد چھوٹا موٹا کاروبار کیا کرتے تھے۔ اکرم شیخ تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ اکرم شیخ نے 1964ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا مگر وہ نصابی تعلیم کا اکتا دینے والے اور ناکافی علم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ ستر کی دہائی میں انہیں کچھ ایسے دوست ملے جنہیں کتب بینی کا شوق تھا۔ اکرم شیخ نے اوائل میں بچوں کے رسائل اور جرائد خرید کر پڑھنا شروع کیے۔ آنہ لائبریری کا چلن عام تھا۔ اپنے ماموں ڈاکٹر سلیم سے کچھ رہنمائی حاصل کی۔ قصور کے حلقہ ارباب ذوق میں وہ ایک خاموش سامع کی حیثیت سے شرکت کیا کرتے تھے اور علم و ادب کے حوالے سے مباحث کو بغور سنا کرتے تھے۔ اسی دوران اکرم شیخ نے غزل اور افسانہ لکھنا شروع کر دیا۔ اسیر عابد جو پنجابی زبان و ادب کے نامور دانشور تھے اور جنہوں نے علامہ اقبال کی ’’بالِ جبریل‘‘ اور ’’دیوانِ غالب ‘‘کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا ہوا تھا۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اکرم شیخ کی سوچ و فکر میں ماں بولی پنجابی چراغ روشن کیا تھ۔ اور پھر چل سو چل۔ پنجابی زبان ہی اس کا طرززیست اور سوچ کا مرکز بن گئی۔ 1986ء میں اکرم شیخ لاہور آئے۔ روزنامہ ’’آفتاب‘‘ میں چار سو روپے ماہانہ پر پروف ریڈر ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اردو میرا ذریعہ روزگار تھا اور پنجابی میرا تخلیقی اظہار تھا‘‘ اکرم شیخ کی اب تک اٹھارہ کتب شائع ہو چکی ہیں۔ جبکہ گیارہ زیر طبع ہیں۔ اپنے آغاز میں ہی اکرم شیخ نے بلھے شاہؒ کا کلام پڑھنا شروع کیا اور بقول ان کے ’’وہ آج تک پڑھ رہا ہوں‘‘ کیونکہ جب بھی پڑھتا ہوں، بلھے شاہؒ کی سوچ کا ایک نیا در وا ہوتا ہے۔ جب میں نے اکرم شیخ سے پوچھا آپ نے بلھے شاہؒ کی شاعری اور فکر میں کیا پایا ہے۔ تو وہ یوں گویا ہوئے۔
اکرم شیخ کا کہنا ہے کہ ’’ بلھے شاہؒ محض ایک صوفی ہی نہیں دانش ور، فلسفی، مورخ اور سماج کا ناقد بھی ہے۔ ملائیت کے خلاف ہے، ہندوازم کے قریب ہے اس نے اپنے بیشتر کلام میں ہندوازم کی اصطلاحوں کو استعمال کیا ہے۔انسانی تہذیب کے آغاز سے لے کر ہندوازم تک تاریخی اور تہذیبی واقعات کو بیان کیا ہے۔ بلھے شاہؒ کو سمجھنے اور جاننے کے لیے اسے ایک عام صوفی نہیںسمجھنا چاہیے۔ بلھے شاہؒ ایک ایسی جادونگری ہے ، شہر طلسمات ہے جس کے کئی ایک دروازے ہیں اور اس میں ہر طرح کے آئینے رکھے ہوئے ہیں اور اس میں انسان اپنے کئی روپ دیکھتا ہے۔ وہ ایک جگت صوفی بن چکا ہے۔ بلھے شاہؒ پس ماندہ انسانیت کا صوفی ہے۔ صوفی ازم انسان سے ہوتا ہوا خدا کی طرف جاتاہے اور انسان میں ہی خدا تلاش کرتا ہے۔ شیعہ سنی تنازعہ ہمایوں کے زمانے میں پروان چڑھا۔ اس وقت بلھے شاہؒ نے نعرہ بلند کیا تھا۔
سُنی ناں، نہیں ہم شیعہ
’صلح کُل کا مارگ لیا
ساہنوں معلوم حقیقت سبھ دی ہے
ہر ہر صورت رب دی ہے
اکرم شیخ نے بتایا۔ ’’دوسرے ملامتی شاعر شاہ حسین ہیں جو دنیا کے لہوولعب سے دور رہنے کے لیے نت نئے روپ اختیار کرتا ہے اور دنیا میں ہی رہتا ہے۔ دھتکارے ہوئے لوگوں سے اس کا تعلق ہے۔ شاہ حسینؒ سب کچھ تج کر صوفی ازم کی طرف آیا تھا۔ اس وقت اس کے ہندو ساتھی چھجو بھگت ،کاہنا بھگت،پیلو بھگت تھے۔ شاہ حسینؒ کی گوروارجن سے ملاقات تھی۔ گوروارجن کو 52ایکٹر زمین جو گولڈن ٹمپل کے لیے مخصوص ہے بادشاہ اکبر نے دی تھی۔ گولڈن ٹمپل کی بنیاد میاں میر نے رکھی تھی۔ ‘‘
اکرم شیخ بابا گورونانک پر بھی کتاب لکھ رہے ہیں- ان کا کہنا ہے کہ امرتاپریتم نے تقسیم ہند کے بارے اپنا شاعرانہ فکری اظہار کیا جو آج ضرب المثل بن چکا ہے۔ اسی طرح احمد راہی تھے۔ جن کا خیال تھا کہ تقسیم نے خطے کو ہی نہیں انسانوں کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ اردو میں انتظار حسین ایک ایسے ادیب ہیں جو یہاں آ کر بھی ’’ادھر‘‘ سے جڑے رہے۔ افضل حسین رندھاوا نے بھی ہوشیار پور سے اپنا ناطہ نہیں توڑا۔ شیوکمار بٹالوی بھی اس تقسیم کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ وہ پنجابی ثقافت کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ اتنی شاندار روایت رکھنے کے باوجود پنجابی زبان کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ تقسیم کے بعد کے حکمرانوں نے پنجابی زبان و ادب کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا۔ مغلوں کی افسرشاہی جو انگریزوں کے ساتھ وابستہ تھی انہوں نے ہی پہلے فارسی، پھر اردو اور انگریزی کو پنجابی کے مقابلے میں ترجیح دی۔ ملائیت ان کی معاون و مددگار تھی۔
اکرم شیخ کی درج ذیل کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
کافر کافر آکھدے( بلھے شاہؒ دا صوفی نظریہ)
نانک تے بلھا(دو پنجابی صوفیاں دی فکری سانجھ)
بلھا تے منصور( بلھے شاہؒ پر منصور حلاج کے اثرات)
بلھا بھگت(بھگتی تحریک اور بلھے شاہؒ)
بُرا حال ہویا پنجاب دا( بلھے شاہؒ کے زمانے کے سیاسی اور سماجی حالات)
ڈاڈھے نال پریت(بابا فریدؒ کی حیاتی اور کلام)
حسین فقیر نمانا(شاہ حسینؒ کا فکری جائزہ)
بلھے شاہؒ دی گلوبلائزیشن( بلھے شاہؒ کا معاشی نظریہ)
میرا بلھا شوہ( بلھے شاہؒ ایک وجود میں جگت صوفی)
نانک لالو لال ہے(گورونانک کی حیاتی کلام اور نظریہ)
پتھراں وچ اکھ(پنجابی غزلاں دا مجموعہ)
رب تے بھگت(بھگت کبیر بارے)
تراجم
ہیر وارث شاہ(وارث شاہ کی ہیر کا اردو ترجمہ)
کیہ جاناں میں کون( بلھے شاہ کا کلام اور اس کی فکری تقسیم)
پنجاب کا صوفی ورثہ(حیاتی اور منتخب کلام کا اردو ترجمہ)
بابا فرید،گورونانک، شاہ حسین، سلطان باہو، بلھے شاہ، وارث شاہ، خواجہ غلام فرید، میاں محمد بخش
دوسرو نہ کوئی(میرا بائی کے کلام کا پنجابی ترجمہ)
انسان اور کتا(طویل مکالمہ۔ایک مکالمہ جو دو انسانوں میں ہونا چاہیے تھا)
اقوال رجنیش(انیسویں صدی کے بدنام صوفی کے اقوال)
اوشو نے کہا(انیسویں صدی کے بدنام صوفی کے اقوال)
ہندی معبد کی سرزمین(سفرنامہ)
سچائی کا زہر(انٹرویو جو اخبارات برداشت نہیں کر سکے)
اکرم شیخ کی حیرت انگیز کتاب ’’انسان اور کُتّا‘‘ کے بارے میں مجھے آرٹسٹ ریاض نے بتایا جس نے اس کا سرورق بنایا ہے۔ پطرس بخاری کا مضمون ’’کتے‘‘ یاد آتا ہے مگر وہ طنزومزاح میں لپٹا ہوا ہے۔ معروف نقاد انور سدید نے لکھا کہ ’’کرشن چندر کی کہانی ’’ایک گدھے کی سرگذشت‘‘ سے آگے کا مطالعہ اکرم شیخ کی کتاب ’’انسان اور کُتا‘‘ ہے۔مرحوم قاضی جاوید اور محمد حنیف رامے نے اکرم شیخ کی اس کتاب کو اپنے اپنے طور سے سراہا اور پیش لفظ و حواشی لکھے۔
اکرم شیخ کی بیٹی سنبل اکرم اورئینٹل کالج سے پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔ ’’وارث شاہ کا لسانی نظام‘‘ اس کے مقالے کا موضوع ہے۔ اس نے قبل ازیں ایم فل کیا ہے۔ جس کا موضوع تھا ’’غزل میں دہشت گردی کے اثرات‘‘ جبکہ ایم اے کے تھیسس کا موضوع تھا ’’غزل پر صوفیانہ اثرات‘‘وہ اس وقت سمندری کالج میں پنجابی کی لیکچرار ہیں۔ اپنے والد کی فکری وراثت کی وہ بخوبی امین ہیں۔ سنبل اکرم نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی اور گولڈمیڈل حاصل کیا تھا۔ شیخ صاحب کا ایک بیٹا سروش علی اور پانچ بیٹیاں ہیں۔
وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ ہے۔ سرکاری ادارے کتابوں کی اشاعت اور فروغ کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ لاکھوں روپے ماہانہ ان پر خرچ ہوتے ہیں مگر اکرم شیخ کی کتابیں چند پبلشرز نے اونے پونے داموں خرید کر شائع کی ہیں۔ اگر اکرم شیخ کو کسی ادارے کا سربراہ بنا دیا جائے تو لازمی امر ہے کہ اکرم شیخ اپنی فکر، سوچ،تجربے اور تحقیقی ُپج کے باعث اس ادارے کے نام کو روشن کر سکتا ہے۔ اور ایسی کتابوں کی داغ بیل ڈال سکتا ہے جو آج کی ضرورت ہے۔ پنجابی ادبی بورڈ کی سربراہ پروین ملک کو بنایا ہوا ہے جو مدتوں سے وہاں بیٹھی ہوئی اونگھ رہی ہیں۔ اس منصب کے اصل حقدار اکرم شیخ ہیں۔ ملک صاحب کو ریٹائرڈ ہوجانا چاہیے۔ اور پنجابی ادبی بورڈ کو فعال کیا جانا چاہیے۔
اکرم شیخ ان دنوں ’’زبان اور مذہب‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی سکھ موجود ہے۔ پنجابی زبان کبھی نہیں مر سکتی۔ کیونکہ گرنتھ صاحب پنجابی زبان میں ہی لکھی گئی ہے۔
اکرم شیخ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پنجاب کی ساری رومانی داستانیں ’مردشاہی‘ کی نمائندہ ہیں۔ جن میں عورت سے وفا کے تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ انھیں معصوم اور مظلوم بھی قرار دیا جاتا ہے۔ بے وفائی کے الزام بھی عائد ہوتے ہیں سب لکھنے والے مرد ہیں حتی کہ وارث شاہ اور حافظ برخودار تو مسجدوں میں پیش امام بھی رہے ہیں ان کے نظریے کا بنیادی ماخذ وہ عورت ہے جو فسادی بھی ہے اور اس کی وجہ سے جنت سے دیس نکالا بھی ہوا تھا۔ تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ تمام داستانوں کے سرناویں عورت کے نام سے شروع ہوتے ہیں۔ ہیررانجھا، سوہنی مہینوال، سسی پنو، سہتی مراد، صرف ایک داستان ہے جس میں مرزا یعنی مرد کا نام سامنے آتا ہے اس میںتمام الزامات واضح طور پر عورت پر عائد ہوتے ہیں جو صریحاً زیادتی ہے کیونکہ اگر کہانی کا گہرائی میں مطالعہ کریں تو واضح طور پر سامنے آتا ہے۔
صاحبان بغاوت بھی کرتی ہے اور مرزے کو ’داناباد‘ اس کے آبائی گائوں جانے کا کہتی ہے کیونکہ وہی اس کے لیے محفوظ پناہ گاہ تھی اور پھر اسے بار بار کہتی ہے کہ تم نے راستے میں کہیں نہیں رُکنا ۔ لیکن وہ خودی ،تکبر اور اَنا کا اسیر ہوتا ہے اور کہتا ہے ’’میری بکی توں ڈرن فرشتے میتھوں ڈرے خدا‘‘اور پھر تھکاوٹ کے باعث درخت کے نیچے آرام کرتا ہے اس دوران میں صاحباں کا بھائی ،صاحباں کے منگیتر کے اکسانے پر لشکرلے کر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر دونوں کو قتل کر دیا جاتاہے جو کاروکاری کی بدترین مثال ہے۔ مرد شاہی کے نمائندہ شاعر سارے الزامات صاحباں پر عائد کرتے ہیں۔ وہ اس کے تیر توڑ دیتی ہے جب وہ سو رہا ہوتا ہے اس کا ترکش درخت میں لٹکا دیتی ہے اب ذرا غور کیجیے جنڈ کے درخت کی اونچائی کتنی ہوتی ہے آٹھ فٹ کامرزا ایک دراز قد پنجابی ہے لیکن وہ ہاتھ بلند کرکے اسے پکڑ نہیں سکتا۔ حملہ آور آ جاتے ہیں اور دونوں کو بغاوت کے منطقی انجام تک پہنچا دیتے ہیں۔
صاحباں کا آبائی گائوں جھنگ کے نواح میں تھا، مرزا دانا باد کا رہنے والا تھا۔ یہ خطہ چالیس کوس سے بھی کم ہے۔ جغرافیے میں ایک راستہ جڑانوالہ سے سمندری اور فیصل آباد کے درمیان سے ہوتا ہوا جھنگ کی طرف جاتا ہے ویسے بھی فیصل آباد کا آباد شہر ہے اور یہ وقوعہ جہانگیر کے زمانہ میں سترہویں صدی میں ہوا تھا۔جس طرح جنم دینے والی ماں ایک ہے اسی طرح پیدا کرنے والا رب بھی ایک ہے۔
اکرم شیخ کہتے ہیں کہ میرا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ میرے بہت سارے دوست بھارتی پنجاب میں ہیں۔ یہاں آتے ہیں مجھ سے ملتے ہیں۔ ایک دو بار میں اُدھر گیا ہوں ان سے ملا ہوں لیکن میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں جس کا نام پاکستان ہے اور اس کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہوں۔ماں بولی اب کیا رہ گئی ہے جب ماں ہی اردو اور انگریزی بولنا شروع ہو گئی ہم ماں بولی تہوار منا کر خوش ہو جاتے ہیں۔ اکرم شیخ کی ایک غزل یہاں پیش ہے۔
رستہ رستہ مریا ہویا
پَتا پَتا ڈریا ہویا
شکر دوپہرے لشکاں مارے
تارا نیزے دھریا ہوا
چٹے دن دی سولی چڑھیا
راتیں بازی ہریا ہوا
صدیاں توں ہے پتھر ہویا
منظر لہو دا بھریا ہویا
ساری راتیں اکھیں اڈکے
ویلا شامیں جریا ہویا
وید بلائو تلیاں جھسو
جاگے جُسا ٹھریا ہوا
سرگی ویلے بوہے آیا
اک پرچھاواں مریا ہویا
تِیلا آن کنارے ڈبا
شوہ دریا وچ تریا ہویا
دیکھیں کدھرے چھلک نہ جاوے
کڑیے بھانڈا بھریا ہوا
اک اک کرکے چھاواں کھاندا
سورج ٹیسی دھریا ہویا
اپنی سُولی موہڈے رکھدا
مرنوں پہلے مریا ہویا
وہ شاعر ،ادیب اور فنکار جو مروجہ روایتوں سے انکار کرتے ہیں اور اپنی سوچ اور فکر کے لیے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ہمیں قابل قبول نہیں ہوتے ۔ منٹو ،فیض، فراز ایسے شخصیات تھیں جو اپنے ملک، معاشرے اور لوگوں میں ہمیشہ اجنبی رہے۔ اکرم شیخ بھی آج ہمارے درمیان اپنی تمام تر تخلیقی توانائیوں کے ساتھ موجود ہے لیکن بقول فیض:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔