بلھے کا قصور جہاں کے بچوں کے لئے زینب کا خون بھی کچھ نہ بدل سکا

بلھے کا قصور جہاں کے بچوں کے لئے زینب کا خون بھی کچھ نہ بدل سکا
پورا پاکستان لرز اٹھا تھا وحشت اور خوف کے دھوئیں سے جب 8 سال کی نہتی لڑکی کو اغوا کے بعد اپن ہوس کی پیاس بھجا کر ہمیشہ کے لیے کالی نیند سُلا دی گئی۔ لیکن آپکی حیرانی آپ کو مبارک کیوں کے یہ صرف پہلا ڈراؤنا خواب نہیں جو اس بستی کے بچوں نے دن دہاڑے دیکھا ہو۔

قصور ایک چائلڈ ابیوز اور قتل کرنے والے بھیڑیوں سے بھرپور شہر جہاں درندے ہمیشہ صفِ اول میں کھڑے ملینگے کیوں کہ نہ تو ان کے چہروں پر کوئی داغ ہوتا ہے نہ ہی وہ کوئی ایک آنکھ والے جانور نظر آتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں آپ کبھی بھی غیر محفوظ محسوس نہیں کرتے اور آپکی اسی خوش فہمی کا شکار آپ ہی کے اپنے جگر کے ٹکڑے ہو جاتے۔

پنجاب کے قصور میں 2015 سے لیکر اب تک 700 چائلڈ ابیوز کے کیس رپورٹ ہوئے جن میں بچوں سے زیادتی کی وڈیوذ بنائی جاتی ہیں اور بہت سارے کیسز میں والدین سے تاوان وصول کیا جاتا ہے تاکہ وہ وڈیوذ وائرل نہ کی جائیں۔ لیکن ایک کیس نے سب کے کان کھڑے کردیے جب 4 جنوری کو قرآن پاک کا سبق لینے زینب امین اپنے گھر سے نکلی اور پھر کبھی واپس نہ آئی۔ بات صرف زینب کے کیس پر ختم نہیں ہوتی ابھی تو وہاں کی ہر گلی میں کھڑے وحشیوں نے نا جانے کتنی بار جانے کتنے معصوم بچوں کو نوچا ہوا ہے۔ حقیقتیں جب کھلتی گئیں تو ایک دو کی نہیں بلکے ایک ساتھ کئی بچوں کے زیادتی کے بعد قتل کر کے لاش کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے کی وارداتیں سامنے آئیں۔  اس کے بعد گر کچھ ہوا تو بس یہ کہ ایسے کیسز کی تعداد میں اضافے کے علاوہ  کچھ نہ ہوا۔ تاہم یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ بہت سارے کیسز ایسے بھی ہیں جو نہ رپورٹ ہوتے ہیں اور نہ ہی میڈیا انہی ہائلائیٹ کرتا ہے۔

وحشتوں کا کفن سر پر باندھے وہ آج ہر گیدڑ کا شکار ہیں  ان کا قصور یہ ہے کہ ان کا جسم شہوت کی بھوک مٹانے کے لیے سرِ بازار حاضر ہے اور اس قتلِ عام اور زیادتی کے جنگل میں گیدڑوں کے شکاریوں نے چوڑیاں پہنی ہوئی ہیں اور خود کسی غار میں جا کر اپنے ہتھیار دفن کر آئے ہیں۔

ساحل ایک NGO جو چائلڈ ابیوز اور چائلڈ انوائرومنٹ کے لیے کام کرتا ہے ان کی رپورٹ کے مطابق چائلڈ ابیوز کے 2321 کیسز 2017 میں، 1838 کیسز 2018، 2012 کیسز 2019، 2252 کیسز 2010 اور 2303 کیسز 2011 میں رپورٹ ہوئے۔ ممتاز گوھر سینئر پروگرام آفیسر 'ساحل' کا کہنا ہے کہ بہت سارے خاندان ایسے کیسز رپورٹ ہی نہیں کرواتے صرف اور صرف اس لیے کہ یہ ایک ممنوع بات ہے اور اس سے گھر کی عزت پامال ہوگی اس کا سبب یہ ہے کے ہم ایک قدامت پسند ملک کے باشندے ہیں جن کی سوچ میں غلاظت کی موجودگی پائی جاتی ہے پر آخر کب تک بچے اس سوچ کا شکار ہونگے۔

ایک نظر ہم اپنی آس پاس کی ٹیکنالوجی پر ڈالیں تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ 90٪ ریپسٹ پورنو گرافی کے عادی ہوتے ہیں۔

(Reported by National Coalition for the Protection of Children and Families)

جس کا مطلب یہی  ہے کہ دقیانوسی ویبسائٹ پر مشتمل غلاظت نے ہمیں درندے بننے میں کہیں کا نہیں چھوڑا اور جب ایسے واقعات کسی اسلامی ملک میں ہوں تو شرم بھی اپنا سر نیچے کر لیتی ہے۔ قدامت پسند سوچ رکھنے والی سوسائٹی میں سیکس ایجوکیشن کی کمی، پورنو گرافی تک رسائی، نشہ اور کچھ علاقائی رسموں نے ہماری سوچوں پر کافی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

2017 میں پاکستان پینل کوڈ میں امینڈمنٹ کر کے چائلڈ ابیوز کے قانون کو سخت کردیا گیا پر چائلڈ رائٹس کے مطابق ایسے قانون کی کوئی اہمیت نہیں جو صرف دیکہنے تک سخت ہو اور اسکو لاگو ہی نہ کروایا جا سکے۔ زینب کے قاتل عمران علی کو لمبے چوڑے ٹرائلز کے بعد پھانسی دے دی گئی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسے سر عام سڑک پر پھانسی دی جاتی تو اس کیس کے بعد بہت سے اور معصوموں کو منوں مٹی تلے دفنانے کے بجائے ہم مستقبل کے رکھوالوں کو بچا لیتے۔

قصور جو کبھی بابا بلھے شاہ کی بستی سے جانا جاتا تھا اب اسی قصور کا نام ہی وہاں کے بچوں اور والدین کے لیے کسی عذاب اور کرب سے کم نہیں۔