بجلی بلوں پر عوامی غضب کا آتش فشاں پھٹنے کو ہے

سال 2018 میں پاکستان میں بجلی کا ٹیرف 12.91 روپے تھا۔ ایک ایسی شرح جو پہلے ہی عام آدمی کی جیب پر بھاری تھی۔ 2024 تک اس میں مجموعی طور پر 322 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس بے مثال اضافے کی وجوہات کثیر جہتی ہیں لیکن سب سے زیادہ قصور وار تحریک انصاف اور اس کو لانے والے ہیں۔

بجلی بلوں پر عوامی غضب کا آتش فشاں پھٹنے کو ہے

پاکستان میں بجلی کا شعبہ بدانتظامی، بدعنوانی اور نا اہلی کی داستان ہے، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت اور شہریوں پر شدید بوجھ ہے۔ ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہونے کے باوجود بجلی غریبوں کے لیے ایک ناقابل رسائی سامان عیش و عشرت بن چکی ہے جو اس شعبے کی بدانتظامی کا خمیازہ اٹھانے پر مجبور ہیں۔ آج بھی مراعات یافتہ طبقات، اشرافیہ، واپڈا اور ڈسکوز کے ملازمین، سول و ملٹری بیوروکریسی، عدلیہ اور بجلی چور مفت یا سبسڈی والی بجلی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور ہوتے چلے آئے ہیں جبکہ عام آدمی ان سب کا بوجھ اور پورا نقصان اٹھاتا ہے۔ بجلی کی بے تحاشا چوری سے صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے جس کا تخمینہ کل پیداوار کا تقریباً 20 سے 30 فیصد ہے جو کہ بغیر جانچ پڑتال کے اور بلا روک ٹوک جاری ہے۔ اس میں تحریک انصاف کی حکومت میں چلنے والا خیبر پختونخوا سرفہرست ہے۔

غریب، جو پہلے ہی رزق کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، مراعات یافتہ طبقات اور بجلی چوروں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ بجلی کے بلوں کا بوجھ ان کے کندھوں پر بہت زیادہ ہے جو بہت سے لوگوں کو غربت اور مایوسی میں دھکیل رہا ہے۔ یہ سراسر ناانصافی ہے کہ بجلی کے شعبے کی بدانتظامی کا بوجھ ان لوگوں پر ڈالا جاتا ہے جو کم سے کم استطاعت رکھتے ہیں جبکہ اس ساری صورت حال کے ذمہ دار ہر احتساب سے بالاتر اور مزے میں ہیں۔

2018 میں پاکستان میں بجلی کا ٹیرف 12.91 روپے تھا۔ ایک ایسی شرح جو پہلے ہی عام آدمی کی جیب پر بھاری تھی۔ پھر تبدیلی کا سال آیا، ریاست مدینہ کی تعمیر شروع ہوئی اور تبدیلی اس بدنصیب ملک کے بدنصیب عوام کی ہر خوشی اپنے ساتھ بہا لے گئی۔ یہ تبدیلی تباہی اور بربادی کا سونامی بن کر آئی، سب کچھ ملیا میٹ کر کے اپنے حواریوں کی جیبیں اور تجوریاں بھر کے غائب ہو گئی۔ حیرت یہ ہے کہ ملک اجاڑنے کے بعد بھی یہ گدھ ابھی تک منڈلا رہے ہیں۔ بہرحال بات ٹیرف کی ہو رہی تھی، اب 2024 تک اس میں مجموعی طور پر 322 فیصد اضافہ ہو چکا ہے جس نے پاکستانی عوام کو پریشان کر دیا ہے۔ اس بے مثال اضافے کے پیچھے وجوہات کثیر جہتی ہیں لیکن سب سے زیادہ قصور وار تحریک انصاف اور اس کو لانے والے ہیں۔

دوسرا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی چوری ہے جس نے اس شعبے کو ادھ موا کر دیا ہے اور کل وقتی پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔ اندازوں کے مطابق کل پیداوار کا 20 سے 30 فی صد چوری ہو جاتا ہے۔ 2019 میں پی ٹی آئی حکومت کے دوران آئی ایم ایف کے پروگرام میں داخل ہونے کے فیصلے نے بھی اس ٹیرف میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا، کیونکہ فنڈ کی شرائط نے سبسڈی کو ختم کرنا اور مارکیٹ پر مبنی قیمتوں کا تعین کرنا لازمی قرار دیا۔ مزید براں، عالمی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگی بجلی کی پیداوار اور انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کی جانب سے فرنس آئل پر انحصار نے قیمتوں میں اضافے کے اس طوفان میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان گہرے زخموں پر نمک پاشی کے طور پر مراعات یافتہ طبقات مفت بجلی سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں، جبکہ عام آدمی اس کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے بجلی کے شعبے کا بوجھ پوری طرح غریب عوام کے کندھوں پر ہے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پاکستان میں بجلی کی قیمت ہمسایہ ممالک سے تقابلی جائزہ میں کہیں زیادہ ہے اور اوسط 30 فیصد سے لے کر 50 فیصد تک بنگلہ دیش اور ہندوستان سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بجلی کے بحران کی جڑیں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے ساتھ مہنگی قیمتوں پر معاہدوں پر دستخط کرنے سے معلوم کی جا سکتی ہیں، جس کے نتیجے میں توانائی کا ایک مہنگا مرکب نکلتا ہے۔ پاکستان کے اقتصادی سروے 2022-23 کے مطابق، انرجی مکس میں 58.8 فیصد تھرمل، 25.8 فیصد ہائیڈل اور 8.6 فیصد نیوکلیئر پاور پر مشتمل ہے۔ مزید براں، بجلی کے متبادل ذرائع مجموعی مرکب میں 6.8 فیصد حصہ ڈالتے ہیں۔

ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن کے نظام بھی ناکارہ ہیں جن کی وجہ سے کافی نقصان ہوتا ہے۔ گرڈ انفراسٹرکچر اور دیکھ بھال میں سرمایہ کاری کی کمی کے نتیجے میں ایک خستہ حال نظام پیدا ہوا ہے جس سے بحران مزید بڑھ گیا ہے۔

بجلی کے نرخوں میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ پاکستانی صارفین کا سولر انرجی پر شفٹ ہونا ہے۔ صارفین کے بڑی تعداد میں شمسی بجلی کی پیداوار پر منتقلی کے ساتھ قومی گرڈ پر طلب غیر معمولی شرح سے کم ہو رہی ہے۔ تاہم، اس پیراڈائم شفٹ کا ایک غیر ارادی نتیجہ یہ ہے کہ طلب میں کمی کا بوجھ غیر متناسب طور پر غریب صارفین پر ڈال دیا گیا ہے جو کہ پہلے ہی پسے ہوئے ہیں۔ اب وہ کم ہوتے ہوئے صارفین کے اخراجات بھی برداشت کر رہے ہیں۔ دریں اثنا، معاشرے کے متمول طبقات شمسی توانائی کے فوائد حاصل کر رہے ہیں، جس سے اس خلا کو مزید وسیع کیا جا رہا ہے۔ یہ رجحان ایک زیادہ جامع اور مساوی توانائی کی پالیسی کی ضرورت پر زور دیتا ہے جو پاکستان کے لیے پائیدار توانائی کے مستقبل کو یقینی بناتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ کرے۔

موجودہ حالات میں بجلی کے بلوں پر عوامی صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اس شعبے کو درپیش ناانصافیوں اور نااہلیوں کو دور کرنے کے لیے فوری اصلاحات ازحد ضروری اور ناگزیر ہیں۔ حکومت کو اس بنیادی مسئلے کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلے اور فوری ایکشن لینا چاہیے۔ ان مسائل میں عدم مساوات کا خاتمہ، بشمول آئی پی پی معاہدات کے، اوور بلنگ کا خاتمہ، بجلی کی چوری کا فوری خاتمہ، مراعات یافتہ طبقات اور اشرافیہ کے لیے مفت بجلی کا فوری خاتمہ، سستی بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور سولر پر منتقل ہونے والے صارفین کی وجہ سے طلب میں کمی کے اضافی بوجھ کو گرڈ میں موجود رہنے والے غریب طبقات پر نہ ڈالنا شامل ہیں۔

ایسا کرنے میں ناکامی یا دیر کے سنگین نتائج ہوں گے اور یہ مسائل بشمول سماجی بدامنی اور معاشی عدم استحکام کے جمہوریت اور عوامی نمائندوں پر عدم اعتماد کی شکل میں سامنے آ سکتے ہیں۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور آتش فشاں پھٹنے کے دہانے پر ہے۔

محمد سجاد آہیر پیشے کے لحاظ سے یونیورسٹی پروفیسر ہیں۔ وہ جمہوریت کی بحالی، کمزور اور محکوم طبقات کے حقوق اور انسانی ترقی کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔