تحریک انصاف پر ایمان لاؤ، وگرنہ سبق سیکھنے کیلئے تیار رہو

تحریک انصاف پر ایمان لاؤ، وگرنہ سبق سیکھنے کیلئے تیار رہو
آج کل وطن عزیز میں احتساب، پرانی فائلیں (اصغر خان کیس)، عائشہ احد کیس اور دیگر نت نئے کیسز کے کھلنے اور منظر عام پر آنے اور فوری طور پر ان پر فیصلہ صادر کرنے کا موسم ہے۔ آپ نواز شریف نامی ایک شخص یا اس کے خاندان کےخلاف کسی بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیے یا پھر کسی بھی ادارے سے رجوع کیجیے، آپ کی فوری داد رسی ہو گی۔ یقین مانیے اب شریف خاندان کو اس حال میں دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ چشم تماشہ یہ ڈرامے دیکھ دیکھ کر بیزار ہو چکی ہے۔ کبھی فاطمہ جناح غدار تو کبھی ذوالفقار بھٹو، کبھی محمد خان جونیجو کرپٹ تو کبھی بینظیر بھٹو اور اب نواز شریف۔ وہی فرسودہ احتساب کا چورن، انصاف کی پھکی اور ملک دشمنی کا منجن اور وہی پرانے راولپنڈی کے شکاری، لولی لنگڑی عدلیہ و ملاؤں کا گٹھ جوڑ۔ وہی پرانے آمریت کے تلوے چاٹتے صحافی و دانشور اور وہی عیاش و غلیظ ریٹارڈ بابے جو اعلیٰ سرکاری نوکریوں کے بعد آخری عمر میں قبر میں پیر لٹکائے ٹیکنو کریٹ حکومت کے خواب دیکھتے ہیں۔

جب صحافت اور دانشوری مکاری میں چارلس سوبھراج کو بھی پیچھے چھوڑ جائے تو۔۔۔

ان بڈھوں نے قیام پاکستان سے لے کر آج تک سوائے مال پانی بنانے کے کچھ نہیں کیا۔ جن جن اداروں یا محکموں کے سربراہان کے طور پر یا کسی نمایاں پوزیشن پر کام کیا تو صرف پلاٹ بنائے، سٹاک ایسچینج کے سٹے سے پیسہ بنایا، رشوت خوری اور کمیشن سے کالا دھن بنایا اور پھر حب الوطنی کا چورن بیچ کر عوام کو خوب جذباتی بلیک میل بھی کیا۔ خیر، اب جب ان کا چورن خریدنے والے موجود ہیں تو ان بڈھوں کی لالچ مکاری و عیاری پر کیا بات کی جائے۔ جب عدلیہ میں جسٹس منیر کی بدروح پھر سے سرایت کر جائے اور راولپنڈی ضیاالحق کے بھوت اور مشرف کی پرچھائی سے نہ نکلنے پائے تو پھر غم کا مداوا کون کرے؟ جب صحافت اور دانشوری مکاری میں چارلس سوبھراج کو بھی پیچھے چھوڑ جائے تو پھر تاریکی شب کی طوالت سے اکتاہٹ ہو بھی تو کیا فائدہ؟

پیغام بہت سیدھا اور واضح ہے لیکن صرف اہل عقل کے لئے

شریف خاندان اور اس کی جماعت مسلم لیگ نواز کو دراصل جس بہیمانہ طریقے سے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس کا واضح مقصد ایسے "باغی" ہموطنوں کو جو کہ طے شدہ ریاستی بیانیے کو کھوکھلا سمجھتے ہوئے اس پر سوالات اٹھاتے ہیں یہ باور کروانا ہے کہ "اپنی اوقات میں رہو"۔



لڑائی گو شریفوں سے ہے لیکن عام آدمی کے لئے اس میں ایک واضح پیغام موجود ہے کہ چپ چاپ جانوروں کی مانند دو وقت کی روٹی کھاؤ، ٹیکس اور محصولات میں آدھی سے زیادہ کمائی پھونکو اور بچے پیدا کر کے آنے والی نسلوں کو بھی غیر مشروط تابعداری کا درس دے کر اگلے جہان کوچ کر جاؤ۔ خبردار جو کسی نے بھی اس ملک کے اصل مسائل کی طرف توجہ دینے کی کوشش کی یا ان کو حل کرنے کی ہمت کی۔ پیغام بہت سیدھا اور واضح ہے لیکن صرف اہل عقل کیلئے۔

سوال اٹھانے کی جرات اور مطالعہ پاکستان پر ایمان کامل

زیادہ تر افراد جو کہ صدق دل سے مطالعہ پاکستان کی نصابی کتابوں پر ایمان کامل لاتے ہوئے "مقدس گائے" کے بیانیے کو آسمانی صحیفہ سمجھتے ہوئے اس پر سوال اٹھانا بھی گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں ان افراد کیلئے اس پیغام کو ایک خوشنما پیکنگ میں پیک کر کے پیش کرنے کا عمل جاری و ساری ہے۔ مشرف دور میں یہ پیکنگ قاف لیگ کی شکل میں تھی اور "شکریہ راحیل شریف" کے دور میں یہ پیکنگ تحریک انصاف کی شکل میں آ گئی، جو کہ آج بھی دستیاب ہے۔

صدق دل سے ایمان لائیے کہ شاہ محمود قریشی، علیم خان، جہانگیر ترین، اشرف سوہنا فرشتے ہیں



اب عام آدمی یعنی آپ کے پاس دو ہی آپشن ہیں؛ پہلا، اس "پرانے چورن" کو نئی پیکنگ کے ساتھ خریدیے یعنی تحریک انصاف کی حمایت کیجئے اور صدق دل سے ایمان لائیے کہ شاہ محمود قریشی، علیم خان، جہانگیر ترین، اشرف سوہنا فرشتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی نہ تو کسی قبضہ مافیا سے تعلق رکھتا ہے نہ ہی شوگر مافیا سے۔ عمران خان کی پاکیزگی اور دیانت پر بھی مکمل ایمان لاتے ہوئے ٹیرن وائٹ، عائشہ گلالئی کو بھولتے ہوئے اور زکوٰۃ چوری کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے لیڈر قرار دینا لازم و ملزم ہے۔

دوسرا راستہ: نامعلوم افراد کی نامعلوم فون نمبرز سے سنگین نتائج کی دھمکیاں

دوسرا راستہ یہ ہے کہ نامعلوم افراد کی نامعلوم فون نمبرز سے سنگین نتائج کی دھمکیاں۔ اور اگر پھر بھی آپ نہ مانیں تو نامعلوم افراد کے ہاتھوں آپ کا دن دہاڑے لاپتہ ہو جانا۔ یعنی کہ حقیقتاً آپ کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ اس "چورن" کو خریدنے کا ہے۔ ویسے بھی دہائیوں سے آزمودہ یہ چورن آپ کے دادا اور باپ نے بھی کھایا ہے تو اب آپ بھی کھائیے۔ رہی بات جمہوریت یا شریف خاندان کی تو اب جس وطن میں مادر ملت فاطمہ جناح غدار قرار دی جائیں اور انتخابات میں ایک فوجی آمر سے شکست کھا جائیں، اس وطن میں شریف خاندان کے ساتھ یہ سب ہونے پر کوئی حیرت اور تعجب نہیں ہونا چائیے۔ کرپشن صرف اور صرف شریفوں نے کی ہے اور رپورٹس صرف ماڈل ٹاؤن سانحہ اور پانامہ کی پبلک ہو سکتی ہیں۔ خبردار اگر آپ میں سے کسی نے بھی جنرل اسد درانی کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں چھپے حقائق کو سچ مان کر جرات سوال کی کوشش کی۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ، کارگل رپورٹ، ایبٹ آباد رپورٹ عام کرنے کی بات بھی کی تو نہ صرف یہ کہ اسے گناہ کبیرہ سمجھا جائے گا بلکہ یہ ایک ناقابل معافی جرم بھی ہے۔

جسٹس منیر کی کوکھ سے جنم لینے والی عدلیہ

دوسری جانب الیکشن کمیشن نے بھی واضح کر دیا ہے کہ ٹی وی چینلز پر معزز عدلیہ اور 'اداروں' کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کی جائے گی۔ پہلے مقدس گائے کے رتبے پر صرف عسکری اسٹیبلشمنٹ فائز تھی لیکن اب جسٹس منیر کی کوکھ سے جنم لینے والی اس اندھی عدلیہ، جسے ملک ریاض یا ارسلان افتخار کے لمبے چوڑے کرپشن کیسسز سننے کی توفیق نہیں اور جو لاپتہ افراد اور مشرف کے کیس کا نام سنتے ہی تھر تھر کانپنے لگتی ہے، کے منصف بھی بزور طاقت اپنی عزت کروانا چاہتے ہیِں۔



والٹئیر نے کہا تھا کہ اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ تمہارے اصل حکمران کون ہیں تو جس طبقے یا گروہ پر تمہیں تنقید کی اجازت نہیں ہو گی وہی تمہارے اصل حکمران ہوں گے۔

تو میرے پیارے ہموطنو، بات مختصرا یوں ہے کہ جب ووٹ کی طاقت کو بندوق سے نہ دبایا جا سکے تو پھر بیلٹ پیپر پر سے وہ نام غائب کر دیا جاتا ہے جس پر عام آدمی انگوٹھا لگانا چاہتا ہے۔ اب تک تو یوں ہی ہوتا آیا ہے اور ہم نے گذشتہ ادوار میں یہ سب دیکھا ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اب کی بار بھی ایسا ہی ہونے کو جا رہا ہے۔ ایسے میں شریف خاندان بالخصوص نواز شریف اور مریم نواز کس حد تک اس 70 سالہ کامیاب اور آزمودہ احتسابی و انتقامی چورن کو بکنے سے روک پاتے ہیں یہ دیکھنا باقی ہے۔

برصغیر میں انگریز سامراج کے خلاف اصل آزادی کی تحریک بھی پنجاب سے ہی اٹھی تھی

ویسے ریٹائرڈ سرکاری منشیوں اور پس پشت قوتوں کی خدمت میں عرض ہے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ برصغیر میں انگریز سامراج کے خلاف اصل آزادی کی تحریک بھی پنجاب سے ہی اٹھی تھی اور بھگت سنگھ نے گوروں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا تھا۔ کہتے ہیں کبھی کبھار تاریخ خود کو دہرا بھی دیا کرتی ہے۔



باقی رہی عام آدمی کی بات تو آئیے ہم سب مل کر ہمیشہ کی طرح تماش بینی کی علت کو پورا کرتے ہوئے نیا تماشہ بپا ہوتے دیکھ کر تالیاں بجائیں اور جو انتخابات کے نام پر پتلی تماشہ ہونے جا رہا ہے اسے ہونے دیں۔ بھلا فاطمہ جناح کے ذلیل و خوار ہونے سے لے کر بھٹو کی پھانسی، بی بی کے قتل، سقوط ڈھاکہ، ایبٹ آباد سانحہ، اکبر بگٹی قتل، مشرف کے ظلم و ستم پر جب ہم کچھ نہ بولے، اوکاڑہ میں غریب کسانوں کے قتل پر آہ نہ کی تو اب کیوں بولیں گے؟ نظام کا کیا ہے؟ اس نے ایسے ہی چلنا ہے جیسے پچھلے ستر برسوں سے چلتا آیا ہے۔ حب الوطنی کی سند اور ایمانداری کے سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے آپ سب پر لازم ہے کہ تحریک انصاف نامی "شفاف لوٹوں" کی جماعت کے ہاتھوں پر بیعت کیجئے، صادق سنجرانی جیسی کٹھ پتلی کو صدق دل سے "فرشتہ" سمجھیے اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں عمل دخل سے لے کر کاروباری سرگرمیوں کو وطن عزیز کے وسیع ترین مفاد کی ضرورت سمجھتے ہوئے صدق دل سے ان پر ایمان کامل لے آئیے۔ بصورت دیگر بقول فیض "ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے" جیسے انجام کیلئے تیار رہیے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔