ڈسکلیمر: مندرجہ ذیل تجزیہ اور معلومات صحافی کی اپنی صوابدید اور ذمہ داری پر ہے۔ ادارے نے اسے بطور تجزیہ شائع کیا ہے۔ اس حوالے سے دعووں کی صحت اور آرا سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو عثمان بزدار کی جگہ پنجاب کے تخت پر بٹھانے کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ اس طرح سعودی عرب کے ناراض حکمران کو منایا جاسکے۔ مرکز میں "کپتان" کے متبادل کے طور پر پی ٹی آئی کے دوسرے بڑے کھلاڑی کو مقتدر حلقوں کے زیر غور لائے جانے کا امکان مزید محدود کردیا جائے. "وسیم اکرم پلس" کو فارغ کرنے کی بابت مقتدر قوتوں کا دیرینہ اور شدید تقاضہ بھی پورا کر دیا جائے اور خود شاہ محمود قریشی کی دیرینہ خواہش بھی پوری کر دی جائے۔
ذرائع کے مطابق ہفتہ بھر قبل مسئلہ کشمیر کے تناظر میں شاہ محمود قریشی نے "او آئی سی" کے حوالے سے سعودی عرب کی حکومت کے رویہ بارے ایک غیر معمولی پالیسی بیان جو ایک ٹی وی ٹاک شو میں دے ڈالا تھا اس سے پیدا ہوجانے والی سعودی شاہی خاندان کی ناراضگی ختم نہیں کی جاسکی۔ یہاں تک سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان جو سعودی عرب کے بادشاہ ، اپنے والد شاہ سلمان کی بیماری کے باعث عملاً سعودی بادشاہ کی حیثیت اور کردار حاصل کرچکے ہیں ، انہوں نے ملاقات کے لئے خصوصی طور پر ریاض آنے والی پاکستان کی دونوں سب سے طاقتور شخصیات سے ملنے سے بھی انکار کر دیا جس پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سعودی کراؤن پرنس کے ساتھ ملاقات کے بغیر ہی منگل کو وطن لوٹ آئے۔
ذرائع کے مطابق مقتدر حلقوں میں باور کیا جاتا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو عہدہ سے ہٹائے بغیر سعودی حکمران کی ناراضگی ختم کرنا ممکن نظر نہیں آتا لہٰذا مقتدرہ میں اس تجویز پر غور شروع کردیا گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے 'فیورٹ' سیاستدان شاہ محمود قریشی جو ماضی میں امریکی سی آئی اے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے پر اسٹیبلشمنٹ کی سائڈ لینے کی خاطر اپنی پارٹی اور پارٹی قائد صدر مملکت آصف زرداری کو چھوڑ کر وزارت خارجہ کی قربانی تک دے چکے ہیں۔ انہیں ایک بار پھر اس وزارت سے فارغ کر دیا جائے ، قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی کروا کے پنجاب اسمبلی کی کسی نشست سے جتوا کر تخت لاہور پر بٹھا دیا جائے ، یوں جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے گدی نشین کی وہ خواہش بھی پوری کردی جائے جس کے لئے 2 سال قبل انہوں نے صوبائی نشست پر الیکشن ہار جانے کے باوجود بھرپور کوشش کی تھی لیکن پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے تحت پر پاکستان تحریک انصاف میں ان کی مخالف کیمپ کے سربراہ جہانگیر ترین اپنی مرضی کا بندہ بٹھوانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
ذرائع کا خیال ہے کہ پنجاب شاہ محمود قریشی کے سپرد کردینے سے اسٹیبلشمنٹ کے اطمینان کا سامان بھی ہو جائے گا پرائم منسٹر ہاؤس پنجاب کے حوالے سے مقتدر حلقوں کے تحفظات ، آئے روز کے گلے شکوے ، تقاضوں اور دباؤ سے آزاد ہوجائے گا تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی سکھ کا سانس لے گی کہ ملک کے سب سے بڑا صوبے کی گدی پر "اپنا بندہ" بیٹھا ہے۔ واضح رہے قبل ازیں عثمان بزدار کے متبادل کے طور پر ڈی جی آئی ایس آئی کے "گرائیں" چکوال سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر راجہ یاسر ہمایوں کا نام "پروموٹ" کیا جارہا تھا کہ نہ صرف دونوں ایک ہی آبائی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ مقامی "ایلیٹ" فیملی کے اس چشم و چراغ کو ابتداء ہی سے مقتدر حلقوں کا اعتماد حاصل ہے۔ اسی لئے 2 سال قبل پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے نامزدگی کے وقت بھی ان کا نام "کپتان" کو زور شور سے پیش کیا گیا تھا۔