بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کے بعد مسلمانوں پر تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چار مسلمان کھانا کھا رہے ہیں جب ہندو انتہاپسند ان پر ناصرف حملہ کرتے ہیں بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔
https://twitter.com/PJkanojia/status/1134528948564398080
ویڈیو میں یہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ ان نوجوانوں کو بیلٹ سے مارا جا رہا ہے۔
ایک ٹویٹر صاف نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا، یہ واقعہ بھارت کے شہر بریلی کے بہدی تھانے کی حدود میں پیش آیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، یہ واقعہ آر ایس ایس کی جانب سے اس نوعیت کے مزید حملوں اور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واضح پیغام ہے۔
ایک اور صارف نے ٹویٹ کیا، اترپردیش کے شہر بریلی میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو کھانا کھانے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے بھی یہ ویڈیو شیئر کی۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق، پولیس نے مسلمان نوجوانوں کو گوشت کھانے پر تشدد کا نشانہ بنانے والے سات ملزموں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
https://twitter.com/Benarasiyaa/status/1134477744438300672
یہ واقعہ 29 مئی کو بریلی میں پیش آیا تھا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور انتظامیہ حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہو گئی۔
واقعہ میں تشدد کا نشانہ بننے والے ایک نوجوان نے کہا ہے کہ وہ اس وقت سبزی کا سالن کھا رہے تھے جب نامعلوم افراد نے ان پر حملہ کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
اس سے قبل بریلی میں ایک استاد کی جانب سے فیس بک پر گائے کا گوشت کھانے کی حمایت میں پوسٹ کرنے پر انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پروفیسر کی گرفتاری کے حوالے سے درج کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا، گرفتار کیا جانے والا شخص ضلع جمشید پور کے ایک سرکاری کالج میں پروفیسر ہے اور اس کا تعلق ضلع جھاڑکھنڈ سے ہے۔ انہوں نے یہ پوسٹ دو برس قبل کی تھی جس پر انہیں اب حراست میں لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد گائے کو مبینہ طور پر ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے کے الزام میں قتل کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
رواں برس 19 فروری کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے یہ ہوشربا انکشاف کیا تھا کہ بھارت میں گائے ذبح کرنے پر مشتعل ہجوم کی جانب سے قتل کے اکثر واقعات میں بھارتی پولیس کے اہل کار ملوث تھے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا میناکشی گنگولی نے کہا ہے، گائو رکھشا کے مطالبات غالباً ہندو آبادی کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بلند کیے گئے تاہم اب یہ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کرنے کے اجازت ناموں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
رپورٹ میں یہ پریشان کن انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ مئی 2015 سے لے کر گزشتہ برس دسمبر تک ایسے حملوں میں کم از کم 44 افراد کو قتل کیا جا چکا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، مرنے والوں میں 36 مسلمان تھے اور تقریباً تمام مقدمات میں پولیس نے یا تو ابتدا میں ہی تفتیش روک دی یا بنیادی طریقہ کار کو نظرانداز کیا اور یوں پولیس قتل کی واردات یا اس کی پردہ داری میں ملوث نظر آئی۔