ہم روز مرہ زندگی میں استحصال کا لفظ بیسیوں بار سنتے ہیں۔ استحصال کرنے والوں کو برا سمجھتے ہیں اور استحصال زدگان سے ہمدردی کرتے ہیں۔ استحصال اپنا اظہار بہت ساری شکلوں میں کرتا ہے۔ جن میں جنسی استحصال، نسلی استحصال، کم عمر بچوں کا استحصال، مذہبی، لسانی گروہی اور سب سے بڑھ کر طبقاتی استحصال نمایاں ہیں۔ استحصال کی ان تمام شکلوں میں ایک قدر مشترک ہے وہ یہ کہ اس عمل میں ایک انسان کا حق مارا جاتا ہے اور دوسرا شخص نا جائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے کہ جس کی بنیاد پر سماج میں نابرابری کی کیفیت جنم لیتی ہے اور سماجی اونچ نیچ قائم ہوتی ہے۔
اونچ نیچ کسی بھی سماج میں احساس کمتری اور احساس برتری کو جنم دیتی ہے اور یہ احساس اپنی محرومی کی تسکین کے لئے طبقاتی کشمکش کو جنم دیتا ہے۔ کشمکش سماج میں انارکی کی بنیاد ہوتی ہے اور انارکی بےچینی کی۔ اس لئے سکون کے متلاشی انسان نے ہمیشہ سے یہ سوال کیا کہ آخر یہ استحصال کیا ہوتا ہے اور کیونکر ہوتا ہے؟ کیوں ایک انسان غلام تو دوسرا آقا ہوتا ہے؟ کیوں ایک انسان کمی تو دوسرا جاگیردار اور وڈیرہ ہوتا ہے، کیوں ایک انسان مزدور ہوتا ہے تو دوسرا سرمایہ دار۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کوئی تو ایک نوالے کو ترستا ہے اور کسی کے کتے بھی بادشاہوں سی زندگی بسر کرتے ہیں۔
ان سب سوالوں کے تاریخ میں بہت سے فلسفیوں نے بہت سے جواب دیے۔ مگر کارل مارکس وہ واحد شخص تھا جس نے تاریخ میں پہلی بار اس معاملے کا سائنسی تجزیہ کیا۔ اور اس عمل کی بنیاد کو سمجھا۔ اس سے پہلے فطرت کی جو بندوق تقدیر کے کندھے پر رکھ کر محنت کش طبقے پر شب خون مارا جاتا تھا کارل مارکس نے وہ بندوق محنت کش کے ہاتھ میں دے کر اسے اس کے دشمن کے بارے میں آگاہ کیا اور انتہائی بے باکی کے ساتھ دنیا کو بتایا کہ فلسفیوں نے اس کائنات کی تشریح کی جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے بدلا جائے۔ اور اگر حالات بدلنے ہیں تو افراد کو نہیں بلکہ نظام کو بدلا جائے۔ کیونکہ یہی نظام ہر فساد کی جڑ ہے۔ آئیے کارل مارکس کے اس دعوے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر سرمایہ داری نظام کیسے موروثی طور اپنے اندر استحصال کی خصوصیت رکھتا ہے۔
کسی بھی نظام سے پیدا ہونے والے اثرات کو سمجھنے سے پہلے اس نظام کو سمجھنا ضروری ہے اور اس نظام کو سمجھنے کے لئے اس کی بنیادی اکائی کو سمجھنا ضروری ہے۔ سرمایہ دارنہ نظام کی بنیادی اکائی ہے "جنس"۔ جنس کسی بھی ایسی شے کو کہا جاتا ہے جو آپ سے باہر وجود رکھتی ہو اور آپ کی کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کرتی ہے (قطع نظر اس سے کہ وہ ضرورت روخانی ہے یا جسمانی)۔
ہر جنس میں قدر ہوتی ہے. قدر کی مزید دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک قدر افادہ، یعنی اس جنس میں موجود فائدہ جو استعمال کرنے والے کو حاصل ہو۔ مثلاً لباس کی افادی قدر ہے موسم کی شدت سے محفوظ رکھنا۔ دوسری قسم قدر تبادلہ ہے یعنی اس جنس میں موجود وہ خاصیت جس کی وجہ سے وہ بنانے والے کے علاوہ کسی اور کام آ سکے۔ اگر کسی چیز میں افادی قدر ہو مگر تبادلاتی قدر نہ ہو تو اس کا تبادلہ ممکن نہیں اور تبادلے کے عمل کے بغیر منڈی وجود میں نہیں آ سکتی اور منڈی کے بغیر سرمایہ داری محال ہے۔ لیکن تبادلہ انہی دو چیزوں کا ممکن ہوتا ہے جن میں کوئی قدر مشترک ہو۔
قدر افادہ چونکہ معیاری خصوصیت ہے اس لئے قدر افادہ کا تبادلے کی بنیاد ہونا ناممکن ہے۔ اس موقع پر کارل مارکس سوال کرتا ہے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جو تمام اجناس میں مشترک بھی ہے اور معیاری لحاظ سے مختلف بھی۔ اگر اس سوال کا جواب مل جائے تو یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ منڈی میں چیزوں کی قیمت کا تعین کیسے ہوتا ہے۔
کارل مارکس سے قبل ایڈم سمتھ ہی اس گتھی کو سلجھا چکا تھا اور وہ یہ سمجھا چکا تھا کہ وہ قدر جو تمام اجناس میں مشترک ہے وہ ان میں موجود انسانی محنت ہے اور اگر کسی جنس سے یہ انسانی محنت نکال لی جائے تو وہ خام مال کا بھنڈار بن جاتی ہے۔ اسی لئے ولیم پیٹی نے کہا تھا کہ زمین تمام اجناس کی ماں اور محنت باپ ہے۔ اس خاص قسم کی محنت کو جو چیزوں میں قدر اصل پیدا کرتی ہے "سماجی لحاظ سے لازمی محنت" کہا جاتا ہے۔
محنت کی خصوصیت ہے کہ کہ وہ بہت متنوع ہے اور بہت سی اشکال میں پائی جاتی ہے۔ اسی لئے اشیا کی بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں۔ اور اشیا کا تنوع ہی تبادلے کی بنیاد ہے۔ دنیا میں ہر جنس میں یہ خصوصیت موجود ہے کہ اس کا تبادلہ کسی اور جنس سے کیا جا سکتا ہے لیکن جیسے جیسے تاریخ میں تبادلے کا عمل تیزتر اور گہرا ہوتا جاتا ہے تو وہ ایک ایسے (جنس) عالمگیر میعار کا تقاضا کرتی ہے کہ جس کے ساتھ تمام اجناس کا تبادلہ ممکن ہو۔ اس جنس کو زر کہا جاتا ہے۔
جنس کا اس کے علاوہ کوئی فریضہ نہیں ہوتا کہ وہ تبادلے کے عمل کو آسان کرے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آگے جا کر یہی زر سرمائے کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ سمجھا جائے کہ زر سے سرمائے کو وجود کیسے ملتا ہے، آئیے اس پر مختصر بحث کر لیں کہ اجناس کی قیمتوں کا تعین کیسے ہوتا ہے۔
اس سوال کو لے کر معاشیات میں دو نظریات موجود ہیں۔ ایک طلب اور رسد کا نظریہ ہے اور دوسرا محنت کا نظریہ ہے۔ کارل مارکس کے نزدیک طلب اور رسد کا نظریہ بھی غلط نہیں جس کے مطابق اشیا کی طلب بڑھنے سے چیزوں کی قیمتیں بڑھتی ہیں اور رسد بڑھنے سے گھٹتی ہیں لیکن کارل مارکس آگے بڑھ کر یہ سوال کرتا ہے کہ آخر طلب اور رسد جس قیمت کا تعین کرتی ہیں آخر اس قیمت کی بنیاد کیا ہے۔ یعنی منڈی میں قیمتیں جس مستقل قیمت کے گرد گھومتی ہیں آخر اس قیمت کی بنیاد کیا ہے۔
کارل مارکس کے نزدیک یہ وہ مقام ہے جہاں ہمیں معاشیات میں نظریہ محنت کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اکثر معیشت دان اس حقیقت سے نابلد اس لئے ہیں کہ وہ قیمت کو سمجھنے کے لئے منڈی کا مشاہدہ کرتے ہیں، پیداواری عمل کا نہیں۔ چیزوں کی قیمتیں ہمیشہ اپنی قدر اصل کے گرد ہی گھومتی ہیں اور قدر اصل ان میں موجود محنت ہوتی ہے۔ اسی لئے مجموعی طور پر تمام اشیا بغیر کسی نفع اور نقصان کے منڈی میں اپنی قدر اصل پر بکتی ہیں۔
تبادلہ اجناس اور زر کی گردش کو جنم دیتا ہے۔ آئیے اس گردش کے عمل کو سمجھتے ہیں۔
اجناس کی گردش کا فارمولا ہے
جنس - زر - جنس
یعنی کوئی فرد جنس بیچ کر زر لیتا ہے اس لئے کہ وہ کوئی اور جنس خرید سکے۔ اور اسی طرح گردش کا عمل جاری رہتا ہے مگر سرمائے کی گردش کا فارمولا اس مختلف ہے۔
سرمائے کی گردش کا فارمولا ہے
زر - جنس - زائد زر ( سرمایہ)
سرمایہ - جنس - زائد سرمایہ
یعنی کوئی سرمایہ دار صرف اس وقت اجناس پر دولت خرچ کرتا ہے جب اسے یہ معلوم ہو کہ وہ زائد زر کما سکے گا۔ اس کو مزید سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ سرمایہ کاری منافع کمانے کے لئے کی جاتی ہے نہ کہ اصل سرمایہ واپس حاصل کرنے کے لئے۔ اب اگرآپ کو مندرجہ بالا قیمتوں کے تعین کی بحث یاد ہے تو ہم جان چکے ہیں کہ اجناس مجموعی طور پر اپنی اصل قیمت پر بکتی ہیں اور کوئی نفع پیدا نہیں کرتی۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ زائد زر کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔
کارل مارکس اس کا جواب دیتا ہے کہ اصل میں زائد زر کسی ایسی جنس سے ہی پیدا ہو سکتا ہے جس کے اندر زائد قدر پیدا کرنے کی صلاحیت ہو۔ اور ایسی جنس جو اپنی قدر سے بڑھ کر قدر پیدا کرتی ہو منڈی میں ملنا ناممکن ہے، اس کو ڈھونڈنا ہو تو آپ کو پیداواری عمل کا بغور مشاہدہ کرنا ہوگا جہاں مزدور اپنی قوت محنت کو جنس کے طور پر بیچ رہا ہوتا ہے۔ اور صرف انسانی محنت ہی وہ جنس ہے جو اپنے سے بڑھ کر قدر پیدا کر سکتی ہے۔ مثلاً اگر آپ کو دن بھر کام کرنے کے لئے پانچ روٹیاں کھانی پڑھتی ہیں لیکن آپ دن بھر میں سو روٹیاں بنا سکتے ہیں، پانچ روٹیاں تو آپ کی محنت کی قدر اصل ہوئی باقی ماندہ پچانوے روٹیاں آپ کی محنت کی قدر زائد ہے۔
سرمایہ دار بڑا ہوشیار ہوتا ہے۔ وہ آپ سے محنت نہیں بلکہ قوت محنت خریدتا ہے یعنی وہ آپ کو آپ کی محنت کا معاوضہ نہیں دیتا بلکہ آپ کی قوت محنت کو تیار کرنے کا معاوضہ دیتا ہے۔ یعنی اتنا معاوضہ کہ آپ خود زندہ رہ کر محنت کر سکیں، محنت کے لئے ہنر سیکھنے کی قیمت دے سکیں اور بچے پیدا کر سکیں تاکہ جب آپ مر جائیں تو اگلے مزدور سرمایہ دار کے لئے تیار ہوں۔ اور اسی گھن چکر میں ہم ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔ اس کہ علاوہ جو بھی ہے وہ زائد قدر ہے اور یہی سرمایہ دارنہ استحصال کی بنیاد ہے۔
ہم مزدور جو دنیا اپنی محنت سے تخلیق کرتے ہیں وہ ہم سے بیگانہ کر دی جاتی ہے۔ ہماری محنت سے ہسپتال بنتے ہیں لیکن ان میں ہمیں علاج میسر نہیں ہوتا، ہماری محنت سے فلک بوس عمارتیں بنتی ہیں لیکن ہم ساری زندگی ایک گھر نہیں بنا پاتے۔ ہماری دولت سے سرمایہ دار اپنی اولادوں کی شادیوں پر کروڑوں خرچ کرتے ہیں لیکن ہمارے پاس سادگی سے بیاہنے کے لئے چند ہزار نہیں ہوتے۔ شادی بیاہ اور زندہ رہنا تو دور اب غریب تو مرنے سے بھی ڈرتا ہے کہ ساری زندگی کی سفید پوشی کا پردہ فاش نہ ہو جائے اور مرنے کے بعد گھر والوں کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑ جائیں۔
ہم بینکوں میں اربوں روپوں کے مخافظ ہوتے ہیں مگر وہ سرمایہ ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ ہم اپنے ہاتھوں سے لاکھوں من اناج اگاتے ہیں وہ اناج سپر سٹورز پر پڑا گل سڑ جاتا ہے لیکن ایک بھوکے کو نہیں پہنچایا جاتا۔
لیکن یہ مفلسی اور زبوں حالی ہمارا ابدی مقدر نہیں ہے۔ کارل مارکس سمجھاتا ہے کہ اس استحصالی تاریخ کا خاتمہ ہونا ہے اور اس کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہو۔
سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ انسانی سماج کے ارتقا کا بنیادی فریضہ ہے اور یہ فریضہ محنت کش طبقہ ادا کرے گا۔ اور ایک ایسا غیر طبقاتی سماج قائم کرے گا جس میں عزت کی بنیاد دولت نہیں بلکہ انسانی کردار اور محنت ہو گی۔ جب انسان کے عمل کی بنیاد ذاتی مفاد اور لالچ نہیں بلکہ اجتماعی مفاد ہوگا۔ جب انسانی ہتھیاروں کے رخ ایک دوسرے کی طرف نہیں بلکہ مشترکہ دشمن کی طرف ہوں گے۔ اور جب انسانیت اپنی معراج کو پہنچ کر کائناتی ہو جائے گی۔