امریکہ ایران تنازع: پاکستان کی موجودہ حکومت میں اہلیت ہی نہیں کہ کوئی کردار ادا کر سکے

امریکہ ایران تنازع: پاکستان کی موجودہ حکومت میں اہلیت ہی نہیں کہ کوئی کردار ادا کر سکے
سیاسی صورتحال کے اشاریے حالات کی سنگینی کی چغلی کھا رہے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سمیت کئی واقعات ایسے ہیں کہ جس سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ دوسری جانب حب الوطنی اور غداری کی اسناد تقسیم کیے جانے پر بھی ایک عجیب طرح کی بے چینی اور بے یقینی کی فضا ہے۔ اب اس ساری صورتحال کو محض اس بات سے نہیں جوڑا جا سکتا ہے کہ عمران خان حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لئے ایسے ایشوکھڑے کر رہی ہے کہ عوام کی توجہ حکومتی کارکردگی سے ہٹائی جا سکے۔

کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ پاکستان میں کسی نئی تبدیلی کے لئے زمین ہموار کی جا رہی ہو؟ ایسی تبدیلی کہ جس میں بڑے بڑے فیصلے آسانی سے کیے جا سکیں۔ بین الاقوامی تناظر میں نئی بنتی صورتحال کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ یمن کے مسئلہ پر ایران کو سبق سکھانے کے لئے بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب اس مسئلہ کا اہم ترین فریق ہے۔ پاکستان کا سعودی عرب سے گہرا رشتہ ہے اور دوسری ایران کی ہمسائیگی ہے۔ امریکہ کا دباؤ بھی ہم کم ہی برداشت کر پاتے ہیں۔



ماضی میں عالمی حالات کے تناظر میں پاکستان میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔ جس سے پیدا شدہ یا پیدا کردہ حالات اور صورتحال کے مطابق پاکستان کا کردار باآسانی متعین کر لیا جاتا رہا ہے۔ ریاست پاکستان سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر دی جاتی ہے۔ امریکہ ایران تنازع میں بھی پاکستان کے اہم کردار کی بازگشت ہے۔ یہ خدشہ برقرار ہے کہ پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے بہتر لوگوں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے بنائے گئے فوجی اتحاد کی قیادت پہلے پاکستان کے پاس ہے۔ عمران حکومت شاید سیاسی قوتوں کے دباؤ میں وہ فیصلے نہ کر پائے جن کی اس وقت کی صورتحال میں ضرورت ہو۔

ایسا ہوتا بھی ہے کہ کسی بھی سیاسی و جمہوری حکومت کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ پارلیمان کو بائی پاس کرتے ہوئے کوئی بڑا فیصلہ کر سکے۔ پارلیمان سے فیصلوں کی منظوری یا توثیق جمہوری حکمرانوں کی مجبوری بھی ہے۔ عوامی حکومت کو عوامی دباؤ اور خواہشات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ خاص کر مسئلہ ایران، سعودی عرب اور امریکہ کے حوالے سے ہو تو مزید احتیاط برتنا مجبوری بن جاتا ہے۔



پاکستان میں ایران کے ساتھ محبت رکھنے والوں کی ایک قابل ذکر تعداد موجود ہے۔ سعودی عرب سے ایک مقدس رشتہ ہے۔ ایک نہیں عوامی حکومتوں کے لئے کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے بین الاقوامی کھیل کھیلنے والوں کو سول حکومتیں سوٹ نہیں کرتیں۔ بوقت ضرورت تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے۔ جس دن سے ایران امریکہ کشیدگی کی خبرآئی ہے، سیاستدان کیا عام پاکستانی بھی عمران خان حکومت کے دن گن رہا ہے۔

گذشتہ روز افطار کے بعد راجہ اعجاز چیئرمین تحریک صوبہ پوٹھوہار دفتر تشریف لائے۔ موصوف تصوف، تاریخ اور بین الاقوامی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ایران امریکا کشیدگی پر گفتگو کرتے ہوئے راجہ اعجاز نے کئی وجوہات سے پردہ اٹھایا کہ ایران پر امریکی یلغار کیوں ہوگی اور نتائج کیا برآمد ہوں گے۔



پاکستان میں نئی بنتی صورتحال پر ان کی دوٹوک رائے تھی کہ موجودہ حکومت میں اہلیت ہی نہیں ہے کہ کسی تنازع میں کوئی کردار ادا کر سکے۔ قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ جمہوری اور آئینی طریقے سے تبدیلی کے امکانات کو رد کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ پاکستان کے عوام بالخصوص پنجاب کے عوام ایک اور تبدیلی قبول نہ کریں اور مزاحمت پر اتر آئیں۔ مگر تبدیلی ضرور ہوگی۔ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔

مزاحمت کے امکانات کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم بجٹ کے بعد جولائی کے شروع یا پھر جون کے آخری ہفتے میں مطلع صاف ہوگا اور کافی ابہام دور ہوں گے۔ عمران خان کی تبدیلی سرکار اور نیا پاکستان کے خدوخال واضح ہوں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، نواز شریف، آصف زرداری، فریال تالپور اور منظور پشتین سمیت اپوزیشن کی اے پی سی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، اس کے نتائج کیا برآمد ہوتے ہیں، جون میں بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ بہرحال عوام الناس کے دلوں میں ایک خدشہ موجود ہے کہ پاکستان کو ریورس گیئر لگایا جانے والا ہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔