نوبیل انعام یافتہ سماجی رہنما ملالہ یوسف زئی نے شہرہ آفاق فیشن میگزین ’ ووگ‘ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پہلی بار اپنی مستقبل کی زندگی سے متعلق کھل کر بات کی ہے۔ لالہ یوسف زئی نے مذکورہ انٹرویو ’ووگ‘ برطانیہ کو دیا ہے اور وہ اگلے ماہ کے شمارے کی سرورق کی زینت بنیں گی۔
طویل انٹرویو میں ملالہ یوسف زئی نے جہاں پہلی بار کھل کر مستقبل کی زندگی اور خیالات پر بات کی، وہیں انہوں نے سیاست، اپنی تعلیم، سماجی منصوبوں اور میڈیا کی دنیا میں انٹری سے متعلق بھی بات کی۔ ملالہ یوسف زئی کی جانب سے ‘ ووگ‘ کو دیے گئے انٹرویو اور ان کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد اگرچہ انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے، تاہم کئی لوگ ان کی بہادری کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔
دوران انٹرویو ملالہ یوسف زئی نے بتایا کہ وہ جب بھی گھر سے نکلتی ہیں تو دوپٹہ ضرور پہنتی ہیں، کیوں کہ اسے نہ صرف مسلمان بلکہ پاکستانی اور پشتون لڑکی کی شناخت اور نشانی کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر جب کوئی مسلمان یا پاکستانی لڑکی دوپٹہ یا دوسرا ثقافتی لباس پہنتی ہے تو ایسا سمجھا جاتا ہے کہ وہ تاحال پدرشاہانہ تسلط میں زندگی گزار رہی ہیں مگر ان کے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ نوبیل انعام یافتہ نے اپنے مداحوں کو پیغام دیا کہ کوئی بھی شخص اپنے ثقافتی لباس اور اقدار میں رہتے ہوئے بھی خودمختار ہوسکتا ہے۔
ملالہ یوسف زئی سے جب پوچھا گیا کہ وہ اگلے 10 سال میں خود کو کہاں دیکھتی ہیں تو انہوں نے مبہم جواب دیا اور وہ واضح نہیں بتا پائیں کہ وہ ایک دہائی بعد کہاں ہوں گی؟
مللالہ نے سوالیہ انداز میں بتایا کہ ممکن ہے کہ وہ یہیں برطانیہ میں ہی مقیم ہوں، یا پھر واپس اپنے ملک پاکستان جا چکی ہوں، ساتھ ہی انہوں نے کہا ممکن ہے کہ وہ کسی تیسرے ملک میں رہائش پذیر ہوں۔ انہوں نےکہا کہ وہ سوچتی ہیں کہ دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ شخصیت بن جانے کے بعد عام زندگی رک نہیں جاتی اور ان کا سفر جاری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل کا سوچ کر وہ سوچتی ہیں کہ کیا انہیں والدین کے ساتھ ہی رہنا چاہیے یا پھر وہ تن تنہا زندگی گزاریں؟تاہم انہوں نے بتایا کہ وہ فی الحال والدین کے ساتھ ہیں اور چوں کہ والدین کی ہمیشہ خواہش رہتی ہے کہ بچے ان کے ساتھ ہی رہیں۔
انٹرویو کے دوران ملالہ یوسف زئی نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجوئیشن کرنے اور وہاں گزارے گئے دنوں پر بھی کھل کر بات کی اور کہا کہ یونیورسٹی کے دن ان کی زندگی کے بہترین دن ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں ان کے زیادہ تر تین مشغلے پڑھائی کرنا، آرام کرنا اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا تھے اور انہیں سب سے اچھا مشغلہ دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا لگتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ کم عمری میں پاکستان میں اسکول پڑھتی تھیں تب وہ ہمیشہ اے ون نمبرز حاصل کرتی تھیں مگر جب وہ آکسفورڈ یونیورسٹی گئیں تو وہاں ایک عام طالب بن گئیں، کیوں کہ وہاں دنیا بھر کے ذہین ترین ذہن پڑھنے آتے ہیں۔
پاکستانی سیاست پر بات کرتے ہوئے ملالہ نے کہا کہ سیاست کوئی ایسی چیز نہیں جس کی میں مکمل نفی کرتی ہوں، تاہم میرے خیال میں سیاست میں آنے سے پہلے آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ یہاں کس لیے ہیں اور کس کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں، پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کا ماضی صاف ستھرا نہیں ہے، آپ ان کا دفاع کریں، پارٹی بدلیں یا اپنی نئی سیاسی تشکیل دیں، عمران خان نے ایسا کیا اور اسے 30 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
ملالہ یوسف زئی کی جانب سے سیاست پر کھل کر بات نہ کرنے کا ایک سبب ان کی سماجی تنظیم ’ملالہ فنڈ‘ کا دنیا کے 8 مختلف ممالک میں سرگرم ہونا بھی ہے۔ ملالہ یوسف زئی کی مذکورہ تنظیم دنیا کے 8 مختلف ممالک میں لڑکیوں کی 12 سال کی عمر تک مفت اور بنا تعطل تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے پر کام کر رہی ہے اور وہ نہیں چاہتیں کہ ان کی جانب سے کسی سیاسی بیان دیے جانے سے ان کی تنظیم پر کوئی فرق پڑے۔
وبیل انعام یافتہ سماجی رہنما نے بالغ شخصیت ہونے کے ناطے رومانوی تعلقات اور شادی کے معاملے پر کھل کر بات کی اور بتایا کہ آج کل کے دور میں جب ان کی کئی قریبی سہیلیاں سوشل میڈیا پر اپنے رومانوی تعلقات سے متعلق باتیں شیئر کرتی ہیں تو بعض مرتبہ وہ احساس محرومی کا شکار بن جاتی ہیں۔
اپنی شادی سے متعلق سوال پر بات کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئی نے جواب دیا کہ لوگوں کو شادی کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ اور رومانوی تعلقات کے لیے لوگ شادی ہی کیوں کرتے ہیں؟ اگر کسی کو کسی شخص کا ساتھ چاہیے تو اس کے لازمی نہیں ہے کہ نکاح نامے پر دستخط کیے جائیں۔
ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ان کا فی الحال شادی کا ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ بچے پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ لیکن ان کے والدین کے خیالات الگ ہیں اور ان کی والدہ کی خواہش ہے کہ وہ شادی کریں۔ ملالہ یوسف زئی کے مطابق والدہ انہیں شادی کی فوائد بتاتی رہتی ہیں اور کہتی رہتی ہیں کہ شادی ایک خوبصورت تعلق اور رشتہ ہوتا ہے۔ اگرچہ ان کے والد بھی شادی سے متعلق اچھی رائے رکھتے ہیں، تاہم انہوں نے ان پر زور نہیں دیا۔
ملالہ یوسف زئی نے انکشاف کیا کہ کئی پاکستانی لڑکے ان کے والد کو ان سے شادی کے پیغامات بھجوا چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانی لڑکے ان کے والد کو ای میل کرکے بتاتے رہتے ہیں کہ ان کے پاس کتنی جائداد اور ملکیت ہیں اور وہ ملالہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں، جس پر ان کے والد خوش ہوتے ہیں۔