پاکستان کا فخر ملالہ یوسفزئی نہیں، سنتھیا رچی ہے

پاکستان کا فخر ملالہ یوسفزئی نہیں، سنتھیا رچی ہے
کسی بھی ریاست، قوم، افراد کے ایک مجموعے یا ایک فرد کے حال اور مستقبل کا اندازہ اُن کے ترجیحات سے آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم ریاستِ پاکستان کی ترجیحات کا اندازہ لگانا چاہیں تو وہ آج کل اِس بات سے آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ جِس دِن پاکستان سے تعلق رکھنے والی دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ لڑکی یعنی ملالہ یوسفزئی دنیا میں پہلے نمبر کی بہترین یونیورسٹی یعنی برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفے، معاشیات اور سیاسیات کی ڈگری لے رہی تھی تو اُنہی دِنوں پاکستان میں سب سے مقبول عورت ملالہ نہیں تھی بلکہ سنتھیا ڈان رچی نامی ایک امریکی خاتون تھی جو کہ کئی سالوں سے کسی نامعلوم مشن پر پاکستان میں تھی اور پاکستانی نوجوان ملالہ کے بجائے اُس پر اسرار امریکی خاتون کے لئے # CynthiaIsPrideOfPakistan  یعنی ’سنتھیا پاکستان کی شان‘ نام کے ٹویٹر ٹرینڈ چلا رہی تھی۔

اور مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی شان کا لقب بھی ایسے دِنوں میں مِل رہا ہے جِن دنوں اُنہوں نے سوشل میڈیا پر پاکستانی سیاستدانوں یعنی پاکستان کو بدنام کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا ہے۔

اگر آپ کو ٹویٹر ٹرینڈ کے بارے میں معلومات ہوں تو آپ کو پتہ ہوگا کہ کسی کی شان میں ایسے ٹرینڈ بنانا کسی منظم سوشل میڈیا ٹیم کا کام ہوتا ہے نہ کہ کئی افراد کا اور پاکستان میں زیادہ تر سوشل میڈیا ٹیمز سیاسی جماعتوں کی ہیں جو وقتاً فوقتاً اپنی اپنی جماعتوں کے لئے ٹرینڈ بناتے رہتے ہیں۔ سنتھیا ڈان رچی کے لئے چلائے گئے ٹرینڈ کے چلانے والوں کے ٹویٹر ہینڈلز سے اندازہ ہو جاتا ہے کس نے اِس پُراسرار امریکی خاتون جو کہ اب پُراسرار نہیں رہی کے لئے ٹرینڈ چلایا۔

سنتھیا ڈان رچی ایک امریکی خاتون ہے جو معلوم معلومات کے مطابق دس سال سے زائد عرصے سے پاکستان میں مقیم ہے اور ڈاکومنٹری بنانے کا کام کرتی ہے۔ معلومات کے مطابق اُنہوں نے امریکہ میں صحافت اور نفسیات کے تعلیم حاصل کی ہے اور پاکستان میں مختلف اداروں اور سیاسی جماعتوں کی ساتھ کام کر چکی ہے۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے منشور کے بنانے میں بھی مدد کر چکی ہے۔ اِن معلومات کے برعکس کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تمام معلومات جھوٹی ہیں اور اگر تمام ماہرین اکٹھے بھی ہو جائیں تو سنتھیا رچی کے متعلق ان کو صرف اتنی معلومات ملیں گی جتنی اس خاتون نے خود دی ہیں۔ امریکہ جیسے ڈیجیٹل معاشرے سے ہونے کے باوجود آپ کو سنتھیا سے متعلق زیادہ معلومات انٹرنیٹ پر نہیں ملیں گی۔ پاکستان آمد سے قبل کا ڈیجیٹل فٹ پرنٹ نہیں ہے، کوئی سکول کی فوٹو، کسی سکول کی ویب سائٹ پر ڈیٹا، نہ کسی دوست، سہیلی، امریکی کنکشن کا ڈیٹا موجود ہے۔ ساتھ بیچلرز اور ماسٹرز ڈگری کا کوئی ڈیٹا نہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ اس کو پاکستان لانے سے پہلے ایک نئی شناخت دی گئی ہے۔ اب اِن دعووں میں کتنی حقیقت ہو سکتی ہے یہ تو اُن کے لانے والے اور خفیہ ایجنسیوں والے ہی بتا سکتے ہیں لیکن یہ بات تو معلوم ہے کہ موصوفہ کے معاملات اور معلومات کمالات سے خالی نہیں۔



سنتھیا ڈان رچی کے کاموں کی وجہ سے لوگوں نے اُس کے تانے بانے پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مِلانے شروع کر دیے ہیں کیونکہ اُس کے تمام کاموں کا تعلق کہیں نہ کہیں اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کے ساتھ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر موصوفہ آج کل پاکستان کے مختلف سیاستدانوں پر مختلف الزامات اورخاص کر جنسی ہراسانی اور ریپ کے الزامات لگا رہی ہیں حالانکہ سوشل میڈیا پر پڑی اُن کی اکثر تصاویر سکیورٹی سے جُڑے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ہیں۔ محترمہ کافی عرصے سے پشتون تحفظ موومنٹ اور اُس کے عہدیداروں کو بھی سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ چونکہ پشتون تحفظ موومنٹ خالص ایک عوامی تحریک ہے اور دہشت گردی کے نام پر ہونے والے جنگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لئے انصاف مانگ رہی ہے، اس لئے سنتھیا کی جانب سے پی ٹی ایم پر تنقید کے پیچھے لوگ مخصوص اداروں کا ہاتھ دیکھتے ہیں۔ ایک اور مثال کے طور پر یہ بات لیجئے کہ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں عام تاثر یہ ہے کہ کچھ لوگ سیاست اور سیاستدانوں کو مختلف طریقوں سے بدنام کر کے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیاستدان ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

سنتھیا نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں یہ بھی کہا وہ وہ پیپلز پارٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ کی ملک دشمن کارروائیوں پر تحقیقات کر رہی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اِس امریکی عورت کو کِس نے، کیسے اور کِس حیثیت سے ایسے حساس معاملوں کی تحقیقات کی اجازت دی ہے۔ ایک صحافی نے تو حوالے کے ساتھ یہاں تک کہا ہے کہ موصوفہ کے استعمال شدہ الفاظ سے لگتا ہے کہ یا تووہ امریکی ہے ہی نہیں اور یا اُس کا ٹویٹر کوئی اور استعمال کر رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اُس نے اپنی ایک ٹوئٹ میں انشاءاللہ کا لفظ بھی استعمال کیا تھا جس نے ٹویٹر کے کسی اور کے استعمال کرنے والے دعوے کو اور طاقت بخشی۔ ٹویٹر پر موجود ڈان نیوز کے ایک صحافی نے یہاں تک اعتراف کیا کہ اُس کو اور سنتھیا  کو پروپیگنڈا کرنے کے لئے پیسے ملتے تھے۔ اُس نے کہا کہ میں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے لیکن سنتھیا اب بھی کر رہی ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ موصوفہ کو وزیرستان، کوئٹہ وغیرہ کیوں لے جایا گیا۔ کچھ لوگ تو یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ موصوفہ کی عادات و اطوار سے لگتا ہے وہ ڈبل ایجنٹ بھی ہو سکتی ہے۔

جِس طرح ریاست پاکستان کی تاریخ ہے کہ اپنے تاریخی ہندوستانی ہیروز کو چھوڑ کر عرب، ترکوں اور کردوں کو اپنا ہیرو بنایا ہوا ہے اُسی طرح آج کل کے ہیروز کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج کل ریاستی سطح پر دنیا میں پاکستان جیسے بدنام ملک کا نام روشن کرنے والی ملالہ یوسفزئی کے آکسفورڈ کے گریجویٹ ہونے پر اُس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہوتی لیکن حسب معمول ہم نے ملالہ کو چھوڑ کر کسی امریکی خاتون کو اپنانا بہتر سمجھا حالانکہ اُنہوں نے پاکستان کو بدنام کرنے کے سوا کچھ کیا نہیں۔