Get Alerts

سنتھیا رچی کے پیپلز پارٹی کی قیادت پر جنسی جرائم کے الزامات: منصوبہ کیا ہے؟

سنتھیا رچی کے پیپلز پارٹی کی قیادت پر جنسی جرائم کے الزامات: منصوبہ کیا ہے؟
 

پاکستان میں مقیم امریکی خاتون سنتھیا رچی کی توپوں سے پیپلز پارٹی کی قیادت پر یکایک سنگین الزامات کی گولہ باری اسٹیبلشمنٹ کے اسی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو خاندانی قبضے یا "وراثتی قیادت" سے آزاد کروا کے نئی قیادت دینا ہے۔ جبکہ اس سلسلے میں پہل پیپلزپارٹی سے اس لئے کی گئی ہے کہ اس پارٹی میں فیصلہ کن کردار کی حامل واحد شخصیت آصف زرداری کے مبینہ شدید بیمار ہونے کے سبب اقتدار والوں کو لگتا ہے پیپلزپارٹی میں نئی قیادت کا مرحلہ کسی بھی لمحے آسکتا ہے۔  ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں پارٹی کی دوسری صف میں موجود سندھ کابینہ میں شامل سعید غنی اور ناصر حسین شاہ جیسے بعض سنجیدہ عناصر اور دیرینہ و نظریاتی رہنماؤں کو اعتماد میں لیا گیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت کے اشتراک سے کھولے گئے اس محاذ پر برسر اقتدار جماعت کے سوات سے تعلق رکھنے والے معروف سینیٹر نے سرمایہ کاری کی ہے.

دوسری طرف پیپلزپارٹی کی پنجاب تنظیم سنیچر کو امریکی خاتون سنتھیا رچی کے خلاف کوئی جاندار احتجاج منظم کرنے میں ناکام ہوگئی جب وہ پارٹی کارکنوں کے ایک اجتماع میں دیرینہ و نظریاتی اراکین کو شریک کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر قمر الزمان کائرہ پارٹی کے دیرینہ اور نظریاتی کارکن کے طور پر شمار ہونے والی بعض شخصیات کو فون کر کے اس اکٹھ میں شریک ہونے کی درخواست کرتے رہے لیکن انہیں آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔  ایک دیرینہ رہنماء اسلم گورداسپوری سے کائرہ نے کہا " آپ پرانے کارکن ہیں ، بھٹو دور سے پارٹی کے پاپولر لیڈرز میں آپ کا شمار ہوتا ہے ، یہاں ڈیڑھ دو سو جیالے جمع ہیں ، آپ بھی تھوڑی دیر کے لئے آجائیں " اسلم گورداسپوری نے جواب میں جب یہ کہا ' میں تو ایک عرصے سے عملی سیاست سے الگ ہوں ' تو قمر الزمان کائرہ نے ان سے درخواست کی" چلیں سنتھیا رچی کے الزامات کی مذمت میں ایک بیان ہی دے دیں۔ آپ کے بیان میں وزن ہوگا " تو اسلم گورداسپوری نے اس سے بھی معذرت کر لی۔ 

ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں پیپلز پارٹی میں کسی بھی وقت قیادت کا خلا پیدا ہوجانے کے متوقع مرحلے کے پیش نظر دو طرح کی شخصیات کو " گندا " کرنے کے لئے ہدف بنایا گیا ہے ، ایک ' زرداری ٹولہ ' جس میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی میں " اوپر " آ کر اہم رہنماء بن جانے والے رحمان ملک جیسے لوگ جو ایف آئی اے کے ایک درمیانے درجے کے افسر سے ڈائریکٹ پیپلزپارٹی میں اہم پوزیشنوں پر جا پہنچے۔ دوسرا پنجاب اور سندھ جیسے اہم صوبوں کی وہ قد آور سیاسی شخصیات جو پارٹی کی قیادت میں شمار ہوتی ہیں ، اسی لئے سنتھیا رچی کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کو بھی اخلاقی حوالے سے ڈس کریڈٹ ( گندا ) کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی میں قیادت کی dynasty ختم یا کم از کم تبدیل کرنے کے پلان کے تحت پارٹی کے اندر سے نئی قیادت ابھار کے ایک نئی پیپلزپارٹی بنانے کے اس عمل میں کسی مرحلے پر بھٹو کی پوتی فاطمہ بھٹو کو ان کی کرشماتی شخصیت کی بناء پر متبادل قائد کے طور پر لانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے .

البتہ یہ دلچسپ " اتفاق " ہے کہ پنجاب سے ہدف بنائے جانے والے تینوں پارٹی رہنماء اسٹیبلشمنٹ کی ناپسندیدہ شخصیات میں شمار ہوتے ہیں ان میں سے ایک رہنماء جسے پیپلز پارٹی میں " گھس بیٹھیا " شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی بابت مقتدر حلقوں کے رویے کا یہ عالم ہے کہ پی پی پی کے پورے دور حکومت میں انسداد دہشتگردی کے لئے قائم کی گئی اتھارٹی " نیکٹا " کا ایک بھی اجلاس محض اس لئے نہ ہوسکا کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے اتھارٹی کے چیئرمین رحمان ملک کی زیر صدارت کسی بھی اجلاس میں شریک ہونے سے انکار کر دیا تھا۔  مخدوم شہاب الدین کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی ناپسندیدگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جب یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد انہیں نئے وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کیا گیا تو راتوں رات انہیں اینٹی نارکوٹکس فورس کی طرف سے ' ایفیڈرین کیس ' میں ملوث کر دیا گیا تھا جبکہ یوسف رضا گیلانی کی مقتدر قوتوں کے خلاف گھن گرج والی تقریر بھی ریکارڈ پر ہے جس میں سابق وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا " state within state " بنائی ہوئی ھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ رہنماؤں سے کہیں زیادہ اور واضح اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف رکھنے والے رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر جیسے' ہارڈ لائنرز ' کو سنتھیا رچی کی طرف سے اس لئے ٹارگٹ نہیں کیا گیا کہ وہ پارٹی میں کوئی قائدانہ کردار نہیں رکھتے بلکہ انٹیلکچوئل سطح پر خدمات انجام دیتے ہیں .

ذرائع کا کہنا ہے " البتہ منصوبہ سازوں سے ایک بلنڈر ہوگیا کہ سنتھیا رچی کے غیر اخلاقی الزامات کا آغاز شہید بے نظیر بھٹو کی ذات کو ہدف بنا کر کردیا گیا۔  بےنظیر بھٹو کی شخصیت کو ملوث کرکے ایک بڑی غلطی کردی گئی کیونکہ ان کے لئے پارٹی کی تمام صفوں ، رہنماؤں اور کارکنوں میں بہت احترام اور جذباتی وابستگی پائی جاتی ہے اور دوسرا وہ دنیا سے جا چکی ہیں . "