ہائیکورٹ حملہ کیس: دو خواتین وکلا کی ضمانتیں منظور

ہائیکورٹ حملہ کیس: دو خواتین وکلا کی ضمانتیں منظور
اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس میں گرفتار دو خواتین وکلاء کی ضمانتیں  منظور کر لی گئیں۔ خواتین وکلاء بشریٰ سلیم اور شہلا بی بی کی ضمانتیں 1، 1 لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کے عوض منظور کی گئی۔


واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس بلاک پر حملے اور توڑ پھوڑ کے کیس میں گزشتہ روز گرفتار ہونے والی دونوں خواتین وکلاء کی ضمانتیں منظور ہوئی. عدالت نے گرفتار خواتین وکلاء بشری سلیم اور شہلا بی بی کی ضمانت بعداز گرفتاری کی درخواستیں منظور کر لی. اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ کیس میں گرفتار 2 خواتین  وکلا کی جانب سے ضمانت بعداز گرفتاری کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور ان درخواستوں پر سماعت انسداد دہشتگری عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے کی.

گزشتہ روز عدالت نے بشریٰ سلیم اور شہلا بی بی کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں واپس لینے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔اسلام آباد بار کورٹ ایسوسیشن کے صدر ذاہد محمود چودھری نے ان گرفتاریوں پر ردعمل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی شخص چاہیے وہ وکیل ہو وہ قانون سے بالاتر نہیں لیکن خواتین وکلاء کا گرفتار ہونا کوئی اچھا شگون نہیں اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔


اس سوال کے جواب میں کہ کیا ان خواتین کو ویڈیوز میں نہیں دیکھا گیا تھا یا ایف آئی آر میں ان کے نام نہیں تھے، اس پر بار کونسل کے صدر نے کہا کہ ہمیں اس کی گہرائی میں نہیں جانا چاہیے کیونکہ ایف آئی آر میں بہت سارے لوگوں کے نام تھے اور ان کو گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ بہت سارے وکلاء جن کے نام ایف آئی آر میں درج نہیں تھے ان کو گرفتار کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ عدالت اور بار کا ایک تعلق ہوتا ہے اور اگر مزید گرفتاریاں ہوگیں تو پھر وکلاء کی جانب سے بھی سخت جواب آئے گا اور حالات خراب ہونگے۔




واقعے  کا پس منظر

7 فروری کی رات ضلعی انتطامیہ، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور مقامی پولیس نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف-8 کی ضلعی عدالتوں کے اطراف میں انسداد تجاوزات آپریشن کیا تھا۔اس آپریشن کے دوران وکلا کے غیرقانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر کو مسمار کردیا گیا تھا اور اس آپریشن کے خلاف مزاحمت پر 10 وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

آپریشن کے ردِ عمل پر پیر کی صبح تقریباً 400 وکلا ضلعی عدالتوں پر جمع ہوئے اور بعدازاں بغیر کسی رکاوٹ کے 100 کاروں کے قافلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے کے بعد وکلا نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر پر دھاوا بولا اور املاک کو نقصان پہنچایا، کھڑکیاں اور گملے توڑے گئے اور ججز کے خلاف گالم گلوچ کی گئی۔ احتجاج کرنے والے وکلا نے عملے کے ساتھ بدتمیزی کی اور چیف جسٹس بلاک میں تعینات سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا، اس کے ساتھ انہوں نے جبری طور پر میڈیا کو احتجاج کی کوریج کرنے سے روکا اور صحافیوں کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دیگر ججز نے مظاہرین کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور انہوں نے پولیس ری انفورسمنٹ اور رینجرز کے کنٹرول سنبھالنے تک چیف جسٹس بلاک کا گھیراؤ جاری رکھا۔ بعدازاں وکلا کے منتخب نمائندوں نے ججز کے ساتھ مذاکرات کیے اور احتجاج ختم کرنے کے لیے اپنے مطالبات پیش کیے۔ ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق وکلا نے سرکاری خرچ پر مسمار کیے گئے چیمبرز کی دوبارہ تعمیر، ڈپٹی کمشنر کے تبادلے اور رات گئے کیے گئے آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے وکیلوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت میں توڑ پھوڑ میں ملوث 17 وکلا کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تھی جبکہ متعدد وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

 

 

 

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔