چند روز قبل عمران خان نے ایک پارٹی اجلاس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میں جانتا ہوں ہماری پارٹی میں کون کون اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ ان لوگوں کے ساتھ سختی سے نمٹوں گا۔ اس موقع پر سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اٹھ کر کہیں جانے لگے تو ہنس کر عمران خان سے پوچھا کہ آپ کہیں میری بات تو نہیں کر رہے؟ جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ تمہاری بات نہیں کر رہا، تم تو مجھے بتا کر ملتے ہو۔
یہ کہنا تھا صحافی اعزاز سید کا جنہوں نے اپنے یوٹیوب چینل ٹاک شاک پر عمر چیمہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کو جن لوگوں پر شک ہے ان میں سب سے بڑا نام اسد عمر کا ہے جنہیں ماضی میں بھی عمران خان کا متبادل سمجھا جاتا رہا ہے۔
اس حوالے سے دوسرا نام شاہ محمود قریشی کا ہے۔ یہ پارٹی کے نائب چیئرمین بھی ہیں اور ان کے اسٹیبلشمنٹ سے بہت پرانے تعلقات ہیں۔ یہ جنوبی پنجاب کے ایک بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کئی نسلوں سے تعلق نبھاتا آیا ہے۔
عمر چیمہ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ شاہ محمود قریشی ان لوگوں میں سے ہیں جن کا اگر ایسی فہرستوں میں نام نہ آئے تو فہرست بھی ادھوری ادھوری لگتی ہے۔
اعزاز سید کے مطابق تیسرے لیڈر جن کے بارے میں عمران خان کے پاس اطلاعات ہیں وہ پرویز الٰہی ہیں۔ عمر چیمہ کے مطابق پرویز الٰہی کے تو تعلقات کبھی اسٹیبلشمنٹ سے ختم ہوئے ہی نہیں۔ تاہم، اس موقع پر اعزاز سید نے بتایا کہ پی ٹی آئی میں شمولیت کا فیصلہ پرویز اور مونس الٰہی کا اپنا ہے اور اس میں ان کے سیاسی عزائم اور شریف خاندان سے مخاصمت کا کردار بنیادی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ اور لیڈران بھی ہیں جو عمران خان تک پہنچنے والی اطلاعات کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ مثلاً پرویز خٹک، شیخ رشید یا فواد چودھری۔ تاہم، یہ خود کو عمران خان کے متبادل کے طور پر نہیں دیکھتے اور انہیں اندازہ ہے کہ ان کی اہمیت عمران خان ہی کی وجہ سے ہے۔
فیصل واؤڈا اور پرویز خٹک ان لیڈرز میں سے ہیں جن کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ یقینی طور پر تعلقات ہیں لیکن یہ دل سے چاہتے ہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات ٹھیک ہو جائیں۔
مگر جن لوگوں کے اس سے قبل نام لیے گئے یہ سنجیدگی سے عمران خان کا متبادل خود کو سمجھتے ہیں اور اپنے تعلقات کی بنیاد پر انہیں امید ہے کہ کبھی نا کبھی ان کا موقع بھی آ سکتا ہے۔
کیا عمران خان کا حقیقتاً کوئی متبادل ہے؟
عمر چیمہ کے مطابق پرویز خٹک ان لوگوں میں سے ہیں جن کے ساتھ کچھ ارکان اسمبلی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی بھی شاید جنوبی پنجاب سے کچھ لوگوں کا ایک گروپ بنا لیں۔ البتہ اسد عمر جن کو ماضی میں بھی عمران خان کا متبادل تصور کیا جاتا رہا ہے ایک حلقے کے بھی لیڈر نہیں ہیں۔ یہ اسلام آباد سے الیکشن جیتتے ہیں جب کہ تعلق ان کا کراچی سے ہے۔ ان کا اپنا کوئی حلقہ نہیں ہے اور یہ مکمل طور پر عمران خان کی خوشنودی اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے مرہونِ منت ہی خود کو ایک لیڈر کہلوا سکتے ہیں۔
البتہ باقی تمام لوگ اعزاز سید کے مطابق سنجیدگی سے سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان نااہل ہوتے ہیں یا کسی بھی اور وجہ سے سائڈ لائن ہوتے ہیں تو ان کا چانس بن سکتا ہے۔
عمر چیمہ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ عمران خان نااہل ہو بھی گئے تو ان کا متبادل ان کی مرضی سے ہی آئے گا۔ جس طرح ماضی میں نواز شریف نااہل ہوئے تو شاہد خاقان عباسی اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ نہیں تھے۔ نواز شریف نے جس کو چاہا، اسی کو وزیر اعظم بنایا۔ کوئی بھی شخص یا ادارہ مکمل طور پر خود مختار نہیں ہوتا۔ اسٹیبلشمنٹ بھی واقعی اتنی طاقتور ہوتی تو سیاسی جماعتوں کے سہارے کیوں تلاش کرتی؟