Get Alerts

قوم کو سب پتا ہے کہ سلیکٹر کون ہے، کھلاڑی کون اور کھیل کیا ہے؟

قوم کو سب پتا ہے کہ سلیکٹر کون ہے، کھلاڑی کون اور کھیل کیا ہے؟
موجودہ حکومت کے بارے میں تو میں شاعر کی اس رائے سے پوی طرح متفق ہوں کہ 'نے ہاتھ باگ پہ ہے نہ پا ہے رکاب میں' لیکن اس کے باوجود بھرم ایسا جیسے دو تہائی اکثریت کی حامل ہو۔

تاریخ کی بدترین دھاندلی کے ذریعے عوام پر مسلط کی گئی اس حکومت کے اکابرین (اس نامعقول حکومت کے لئے اس لفظ کے استعمال کرنے پر قارئین سے معذرت خواہ ہوں) میں اگر ذرا بھی فہم و فراست ہوتی تو آج ملک اس حال کو نہ پہنچا ہوتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس حکومت کو منتخب کرانے والے 'سلیکٹرز' کون تھے؟ کوئی کہتا تھا کہ یہ محکمہ زراعت کا کام ہے تو کوئی اسے 'خلائی مخلوق' کا کارنامہ کہتا تھا لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ کوئی بھی تھا اس نے یقیناؑ سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی ہوتی تھی اسی لئے نہ وہ خود نظر آتا تھا اور نہ اس کا خفیہ ہاتھ۔

یہ پچھلے ستر سال سے اس قوم کے ساتھ یہ مذاق کرتا چلا آ رہا تھا۔ اس نے ہمارے تین دریا دشمن کو بیچ کر ہمارے دریاؤں کو پانی کی ایک بوند کے لئے ترسا دیا، اس کی انہی خرمستیوں کی وجہ قائد کا پاکستان آدھا رہ گیا، سیاچین گیا، کارگل گیا اور حال ہی میں کشمیر بھی گیا لیکن مجال ہے جو آج بھی وہ اپنی ان قبیح حرکات پر شرمندہ ہو۔

اپنی ان حرکات کے باوجود وہ خود کو سب سے بڑا محبِ وطن کہتا رہا ہے۔ قوم کو یاد ہے 2016 میں کروڑوں روپے خرچ کر کے ملک کے طول و عرض میں 'شکریہ راحیل شریف' کے پوسٹرز کس نے چسپاں کرائے تھے اور آج وہ کس عہدے پر فائز ہے؟ قوم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ آج ایک بار پھر لاہور کی سڑکوں پر 'ایاز صادق غدار' کے پوسٹرز کس نے چسپاں کرائے ہیں؟ آپ سمجھتے ہیں کہ قوم نہیں جانتی کہ کس نے لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی پوری قیادت کے خلاف غداری کا پرچہ درج کرایا؟

حضور قوم تو یہ بھی جانتی ہے کہ ثاقب نثار کس کی چاکری کر رہا تھا۔ قوم نے نیب کی عدالت سے ایک صاحب کو باہر نکلتے دیکھا اور قوم نے اسی وقت یہ بھی دیکھا کہ اسی عدالت میں اس وقت کے وزیر داخلہ کو داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ قوم نے وہ ویڈیو بھی دیکھی جس میں عدالت کا جج اپنی بے اختیاری کا رونا رو رہا تھا۔

بار بار یہ کھیل دیکھ کر قوم بخوبی سمجھ چکی ہے کہ کون پوشیدہ ہے اس پردہ زنگاری میں۔ آپ کی شجاعت کے تذکرے زبان زد عام، آپ کی قوت کا لوہا ایک عالم پر ثابت، آپ کی دہشت سے دشمن کا پتا پانی، پھر یہ تکلف کیسا؟

بس ہو چکا حضور یہ پردے ہٹائیے
سب منتظر ہیں سامنے تشریف لائیے

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔