Get Alerts

افغان پناہ گزینوں کی جبری واپسی سے پاکستان کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

یہ ناقابل فہم ہے کہ پاکستان جیسی سکیورٹی سٹیٹ میں اس کے سلامتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں و محکموں کے علم اور مرضی کے بغیر دوسرے ملک سے آئے ہوئے مہاجرین دہائیوں تک بین الاقوامی سمگلنگ اور جرائم میں ملوث ہوں لیکن ان کو آج پتہ چل رہا ہو۔

افغان پناہ گزینوں کی جبری واپسی سے پاکستان کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟

آج کل دو سانحات میڈیا اور رائے عامہ پر چھائے ہوئے ہیں۔ عالمی میڈیا پر اسرائیلی ریاست کے ہاتھوں فلسطینیوں کی رواں نسل کشی اور پاکستانی میڈیا پر افغان مہاجرین کو زبردستی اور بے سر و سامانی کی حالت میں ڈیورنڈ لائن کے اس پار پھینکنے کے عمل کیلئے رائے عامہ ہموار کرنا۔ ان دونوں مسائل یا سانحات پر مختلف ریاستوں، ان کے حکمرانوں اور ان سے وابستہ میڈیا اور مفاداتی گروہوں کا ردعمل یکسر مختلف ہے۔ اس دوغلے پن سے یہ حقیقت مزید عیاں ہو رہی ہے کہ انسانی المیے اور انسانیت و انسانی حقوق کی کوئی ایک مسلمہ عملی تعریف و تشریح تقریباً ناپید ہے اور ہر کوئی اس کو اپنے زاویہ نگاہ و مفادات کے چشموں سے دیکھتا ہے، پرکھتا ہے اور اس کو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرتا ہے۔ جیسا کہ مغربی ریاستوں اور میڈیا کیلئے ایک غاصب و قابض ریاست کا دفاع و سلامتی کے نام پر ہر جنگی و انسانی قانون کو روندنا اور فلسطینیوں کی نسل کشی جائز ہے۔ لیکن وہاں کی آزاد اکثریتی رائے عامہ اپنے حکمرانوں اور میڈیا سے مختلف نقطہ نظر بھی رکھتی ہے۔ عین اسی طرح کی صورت حال افغان مہاجرین کے زبردستی انخلا پر پاکستان میں پائی جاتی ہے۔

جیسا کہ جرمن نازی جرمنی میں پائی جانے والی ہر برائی اور ناکامی کا الزام یہودیوں پر ڈالتے تھے، اسی طرح آج کل پاکستان کے حکمران سمگلنگ سے لے کر کساد بازاری تک ہر جرم و سماجی برائی کیلئے ان مظلوم افغان مہاجرین کو مورد الزام ٹھہرا کر ان کے سر تھوپنا چاہتے ہیں جو اصل میں ریاستی پالیسیوں، حکمران طبقہ اور اس کے پیدا کردہ مفاداتی گروہوں کے اعمال اور کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ البتہ ان دو مثالوں میں فرق اتنا ہے کہ نازی یہودیوں کو اشویت اور دیگر کنسنٹریشن کیمپوں میں جمع کر کے آگے گیس چیمبرز میں پہنچاتے تھے اور پاکستان کے حکمران ان افغان مہاجرین کو ریفولموو سنٹرز میں جمع کر کے آگے ڈیورنڈ لائن کے اس پار پھینکنا چاہتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ان بیچارے مہاجرین کو 1980 کی دہائی میں ایک منظم پروپیگنڈا مہم چلا کر اپنا ملک و گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور بین الاقوامی و علاقائی سیاسی و تذویراتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ چار دہائیوں تک ان کو بین الاقوامی، ریاستی اور گروہی مفادات کی تکمیل کیلئے بطور کور استعمال کیا لیکن اس وقت یہ مجاہد تھے، اسلام اور پاکستان کے محافظ تھے لیکن اب ان کو جرائم پیشہ اور سماج دشمن ثابت کر کے شاید کسی نئی علاقائی سیاسی چال میں بطور مہرا استعمال کرنے یا بھینٹ چڑھانے یا پھر پرانے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

یہ ناقابل فہم ہے کہ پاکستان جیسی سکیورٹی سٹیٹ میں اس کے سلامتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں و محکموں کے علم اور مرضی کے بغیر دوسرے ملک سے آئے ہوئے مہاجرین دہائیوں تک بین الاقوامی سمگلنگ اور جرائم میں ملوث ہوں لیکن ان کو آج پتہ چل رہا ہو۔

یہ تو اب کوئی راز نہیں کہ ہم دنیا کے کئی خطوں میں اپنی ٹانگ اڑانے، ملک میں مختلف سیاسی و مذہبی تحریکیں بنوانے اور بگاڑنے کا بہت شوق رکھتے تھے۔ اس ضمن میں اب یہ تحقیق طلب بات ہے کہ ہم نے کس کس مقصد کے لیے اور کہاں کہاں افغان مہاجرین کا کور استعمال کیا۔

یہ سونے پہ سہاگے والی بات تھی، کیونکہ ہمارے پاس سفارتی میدان میں بیچنے کیلئے کوئی اور خاص چیز تو تھی ہی نہیں، لہٰذا سفارت کاری کے دسترخوان پر ان مہاجرین کی مہمان نوازی کی سوغات ہر فورم پر خوب بیچتے تھے۔ اس کے بدلے ہم نے نام بھی بڑا کمایا اور دام بھی۔ چار دہائیوں تک بلکہ آج بھی ہماری سفارتی ٹوپی میں سب سے نمایاں حاشیہ یہی تو ہے۔

اس کے بدلے ہم نے دنیا سے ڈالرز اور جدید ہتھیار سے لے کر سفارتی تعاون بھی بہت حاصل کیا اور آج بھی ہمارے سفارت کار یہی مہاجرین اور انصار والے چورن بیچنے سے نہیں کتراتے، لیکن کرتوت ہمارے ایسے ہوتے ہیں کہ آخر میں اندھے کو نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔

جو سلوک آج حکمران افغان مہاجرین کے ساتھ کر رہے ہیں مستقبل میں اس کا خمیازہ پاکستانی عوام اور ریاست دونوں کو مخلتف شکلوں میں بھگتنا پڑے گا۔

عالمی قوانین کی رو سے کسی بھی پناہ گزین کو زبردستی اس علاقے، ملک یا حالات میں نہیں دھکیلا جا سکتا جس کی وجہ سے وہ مہاجرت اور پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوا ہے۔ اگر یہ نظیر قائم کی گئی تو اس کے منفی اثرات دنیا میں پھیلے پاکستانیوں پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ بین الاقوامی و سفارتی سطح پر امیج کا مسئلہ الگ ہو گا۔ لیکن سب سے بڑھ کر موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی نیت اور ان کی لائی ہوئی نگران حکومت کی ہئیت پر شکوک و شبہات کو مزید تقویت دے گا۔

سردست تو اسٹیبلشمنٹ اور اس کے میڈیا پنڈت اس جبری انخلا کیلئے جو تاویلات و الزامات گھڑ رہے ہیں وہ نہ صرف بے بنیاد ہیں بلکہ ایک پوری افغان قوم جو ان کی پڑوسی بھی ہے، کے بارے میں نفرت پھیلا رہے ہیں۔

یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ ملک میں (لولی لنگڑی ہی سہی) کوئی منتخب حکومت بھی نہیں، اور یہی بات اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ یہ نگران کون ہیں اور کسی خاص مقاصد کیلئے لا کر بٹھائے گئے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو کوئٹہ جا کر کسی ریڑھی والے سے نگران وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے بارے میں پوچھیں۔ اگر انہوں نے ان کی جگہ، سیاسی پیدائش کس کے ہاتھوں میں ہوئی، کس نے گھٹی پلائی، کس نے انگلی پکڑوا کر چلنا سکھایا، تک سب کچھ آپ کو نہیں بتایا تو کرایہ واپس۔

یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کے آنے کے بعد خصوصاً بلوچوں اور پختونوں میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی کہ جنگل کاٹنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے اپنی کلہاڑی میں دستہ اسی جنگل کا ہی لگایا۔

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔