بھارت میں سامنے آنے والے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سیکس سکینڈل میں تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے۔ جیسے جیسے اس کیس کی تحقیقات میں پیش رفت ہو رہی ہے، اہم انکشافات منظر عام پر آ رہے ہیں۔ بھارتی تاریخ کے اس بڑے جنسی سکینڈل سے متعلق سنسنی خیز انکشافات سامنے آنے کے بعد مدھیا پردیش کے کئی لوگ سکتے میں ہیں۔
اس سکینڈل کی مرکزی ملزمہ 39 سالہ شویتا جین ہیں، جنہوں نے سائبر سیکیورٹی کی کمپنی بنا کر سیاستدانوں، سرکاری و پولیس افسران، تاجروں اور امیر افراد کو بلیک میل کیا ہے۔ مجموعی طور شویتا جین کے ساتھ 5 خواتین کو گرفتار کیا گیا ہے، ان میں 34 سالہ برکھا سونی، 48 سالہ شویتا وجے، 29 سالہ آرتی دیال اور 18 سالہ مونیکا یادیو شامل ہیں۔
اب تک سامنے آنے والی معلومات کے مطابق ان خواتین کی جانب سے مدھیا پردیش سمیت دیگر ریاستوں کی خوبرو اور کالج میں زیر تعلیم لڑکیوں کو نوکریوں اور پرتعیش زندگی کی لالچ دے کر بھرتی کیا گیا اور انہیں وزرا، اعلیٰ افسران، تاجروں اور بااثر ترین مرد حضرات کو بلیک میل کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا۔
اس سکینڈل کو ’ہنی ٹرپ‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس کیس میں پولیس کو ملنے والی ویڈیوز میں وزرا، اعلیٰ افسران اور بااثر افراد کی برہنہ اور قابل اعتراض ویڈیوز بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تفتیشی افسران نے گرفتار کی گئیں خواتین سے کم سے کم ایک ہزار فحش ویڈیوز اور نامناسب تصاویر برآمد کی ہیں۔ جبکہ بھارتی خبر رساں ادارے ٹائمز آف انڈیا کے مطابق پولیس کو ایک ہزار نہیں بلکہ کم سے کم 4 ہزار فحش ویڈیوز، تصاویر، آڈیو ریکارڈنگز اور واٹس ایپ پیغامات ملے ہیں۔
اس سکینڈل کی تفتیش کرنے والے پولیس افسران کو یہ چیلنج بھی درپیش ہے کہ وہ برآمد کی گئی نامناسب ویڈیوز اور فحش تصاویر کو محفوظ کیسے رکھیں؟ ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں بتایا گیا کہ برآمد ہونے والے انتہائی حساس اور نامناسب مواد کی حفاظت کے پیش نظر ہی اعلیٰ سرکاری افسران کو بھی برآمد ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر تک رسائی نہیں دی جا رہی اور اب تک ہونے والی تفتیش کی مکمل معلومات بھی میڈیا کو فراہم نہیں کی جا رہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف مدھیا پردیش کے ایک رکن اسمبلی کی ہی 30 نازیبا ویڈیوز بنا کر انہیں کم سے کم 2 سال تک بلیک میل کیا جاتا رہا اور وہ خودکشی تک کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
اس سکینڈل میں مدھیا پردیش کے صحافی بھی ملوث ہیں۔ صحافیوں سے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ وہ ان وزرا، سرکاری افسران اور بااثر شخصیات کو ایسا تاثر دیتے تھے کہ وہ انہیں ایک بدنامی سے بچا رہے ہیں لیکن دراصل وہ خواتین کے گینگ سے ملے ہوتے تھے۔
اس کیس کی مزید تحقیقات جاری ہیں، گرفتار ملزمان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش میں مزید انکشافات سامنے آنے کا امکان ہے۔