بندہ غیرت مند ہونا چاہیے۔۔۔ کپتانی آنی جانی شے ہے۔ اسے کہتے ہیں غیرت کا سودا نہ کرنا۔ کپتانی کی قربانی دے کر عزت بچا لی بابر اعظم نے اپنی۔ اگرچہ یہ فیصلہ بہت دیر سے کیا کنگ بابر اعظم نے پر دیر آید درست آید۔ بھلے ہی کپتانی کو لات مار دی اس عظیم کرکٹر نے لیکن کوئی فرق نہیں پڑے گا بابر کے Stature پر اس فیصلے سے۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے پلیئر تھے، ہیں اور رہیں گے۔ کپتانی بابر کی محتاج ہے، بابر کپتانی کے محتاج نہیں۔ وہ Larger Than Life ہیں۔ وہ دِلوں کے کپتان تو ہیں ہی لیکن اب بھی اصل کپتان وہی رہیں گے۔ اس کی وجہ ہے بابر اعظم کا پاکستان کا سب سے بڑا پلیئر ہونا۔
آپ دیکھ لیجیے گا کہ خود کپتان ان سے آ کے مشورے لے گا۔ اور اگر وہ خود مشورہ دیں گے تو کپتان ہر صورت مانے گا۔ اور کیوں نہ مانے کہ یہ مشورہ بابر جیسے مہان پلیئر کا ہوگا۔ اور ایسا ہو بھی چکا ہے۔ بنگلا دیش کے خلاف سیریز میں کپتان شان مسعود تھے مگر کیمرے نے دکھایا کہ کچھ وقت کے لیے کپتانی بابر کے ہاتھ میں تھی۔ Field Placement سمیت سارے فیصلے وہی کر رہے تھے۔ دوسری مثال انڈیا کی لیتے ہیں۔ سچن ٹنڈولکر کپتان نہیں تھے مگر وہ جو کہتے تھے کپتان ان کی بات مانتا تھا کیونکہ وہ بات کسی عام پلیئر کی نہیں بلکہ سچن ٹنڈولکر کی تھی۔ ایسا ہی کوہلی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر وہ کپتان کو کہہ دیں کہ فلاں بالر کو اوور دو یا فیلڈ تبدیل کر دو تو عمل ہوتا ہے ان کے مشورے پر۔ بابر بھی تو پاکستان کے سچن اور کوہلی ہیں نا۔ ان کا بھی ٹیم پاکستان میں وہی مقام ہے جو انڈین ٹیم میں سچن کا تھا اور کوہلی کا ہے۔
اور اس بات کی بھی دنیا گواہ ہے کہ جب سچن اور کوہلی نے کپتانی چھوڑی تو ان کی کارکردگی مزید نکھر گئی تھی۔ اب آپ دیکھیے گا کہ آپ کو نیا بابر اعظم نظر آئے گا۔ ناصرف ان کی فارم بحال ہوگی بلکہ ان کی پرفارمنس بھی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ ظاہر ہے جب کپتانی کا بوجھ ہی ہٹ جائے گا تو کارکردگی تو خود بخود بہتر ہو جائے گی نا۔ اور یہی بات بابر نے بھی اپنے ٹویٹ میں کی۔ انہوں نے لکھا کہ ان کی خواہش ہے کہ اپنی پرفارمنس کو ترجیح دیں اور اپنی بیٹنگ کو انجوائے کریں۔ اب وہ مزید فوکس کر سکیں گے اپنی گیم پر۔ لیکن سوال یہ ہیں کہ کیا بابر اعظم کے استعفے کی ٹائمنگ درست ہے یا غلط؟ بابر اعظم نے اپنے بیان میں کون سا بڑا یوٹرن لیا؟ اور کیا بابر نے ٹیم کے ہارنے کے ڈر سے کپتانی چھوڑی؟
بابر نے بالکل درست وقت پہ کپتانی سے استعفا دیا۔ اس وقت وائٹ بال کرکٹ نہیں کھیل رہا پاکستان۔ یوں بورڈ کو بھی ٹائم مل گیا نئے کپتان کے انتخاب کا۔ اگرچہ بابر کو ٹی 20 ورلڈ کپ کے فوراً بعد ہی کپتانی سے مستعفی ہو جانا چاہیے تھا مگر یہ وقت بھی غلط نہیں۔ اور یہ بات بالکل درست ہے کہ شکست کا خوف بھی ایک وجہ ہے بابر کے استعفے کی۔ اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کی گھٹیا ترین کرکٹ کھیل رہا ہے۔ ایسے میں کوئی گارنٹی نہیں کہ ہم نومبر میں آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے اور ٹی 20 سیریز اور پھر اگلے برس چیمپئنز ٹرافی میں کوئی کمال کر سکیں۔ اس لیے صحیح معنوں میں عزت بچائی بابر نے۔ لیکن یہ غلط بیانی کی کہ ان پہ ورک لوڈ بہت تھا اس لیے انہوں نے کپتانی چھوڑی۔ اور وہ ایسے کہ بابر اعظم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ ان پہ کوئی ورک لوڈ نہیں۔ کپتانی کا کوئی پریشر نہیں ان پہ۔ مگر اب انہوں نے اپنے اس Stance سے یوٹرن لے لیا ہے۔