تحریک انصاف حکومت کے دو سال: پولیس اصلاحات کہاں تک پہنچیں

تحریک انصاف حکومت کے دو سال: پولیس اصلاحات کہاں تک پہنچیں
سب سے بڑا مسئلہ پولیس اور عوام میں بداعتمادی کا خلاء اور رابطے کا فقدان ہے جس سے عام آدمی کے اندر اس محکمہ کے بارے میں  ڈر، اور خوف پیدا ہوگیا ہے جو تب تک دور نہیں ہوگا جب تک ہمارے ہاں کمیونٹی پولیسنگ نہیں ہوگی۔ اگر ایسے رویہ کو جڑ سے ختم نہ کیا گیا جس سے یہ دوریاں اور نفرتیں پیدا ہوئی ہیں تو یہ نفرت مزید بڑھے گی۔

پولیس کو صرف کاغذات کی حد تک احکامات کی بجائے حقیقتا اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ واقعتا عوام کے جان و مال کی حفاظت کیلئے کوشاں ہے۔ اور عوام کو بھی اس بات کا احساس ہونا لازم ہے کہ یہی ہمارے حقیقی محافظ ہیں۔ لیکن اس بات کو ثابت کرنے کیلئے بھی پولیس ہی کو اپنے بارے عوام میں اس فقدان کے خاتمے کیلئے کچھ کرنا ہوگا۔ مستغیث بارے انصاف کی بنیاد کسی عدالت سے نہیں  بلکہ سب سے پہلے تھانہ سے شروع ہوتی ہے۔ اگر پولیس ایمانداری سے کام کرتی ہے اور بنا کسی دباو، رشوت اور سفارش کے جرائم کے خاتمے کیلئے کام کرتی ہے تو پھر عوام کو بھی اس کے نظام پر اعتماد ہوتا ہے۔

ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر

پولیس عوام میں نفرت کی پہلی وجہ ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر یا لیت و لعل سے کام لینا ہے جبکہ دفعہ 154 ضابطہ فوجداری کے تحت ایس ایچ او متعلقہ تھانہ اس بات کا پابند ہے کہ جب کوئی شہری تھانہ میں کسی وقوعہ کی بابت رپورٹ درج کرانے کیلئے آئے تو فلفور مثتغیث کی رپورٹ پر ایف آئی آر درج کرکے تفتیش شروع کی جائے لیکن اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ مثتغیث کی رپورٹ پر فورا ایف آئی آر درج نہیں ہوتی بلکہ انکی درخواست کو بابت چاکیدگی ایف آئی آر ایس ایچ او صاحب اے ایس آئی کو انکوائری کیلئے مارک کردیتا ہے جس پر کافی تاخیر کے بعد پرچہ درج ہوتا ہے یا پھر دفعہ 156(3) ضابطہ فوجداری کی دریافت بابت وقوعہ شروع ہوجاتا ہے اور ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی۔

محکمہ پولیس میں خواتین اہلکار کا اہم عہدوں پر نہ ہونا

یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ماسوائے چند بڑے شہروں کے باقی پورے ملک میں محکمہ پولیس میں شکایت سیل، فرسٹ انویسٹیگیشن رپورٹ کے اندراج اور تفتیش میں خواتین پولیس اہلکاروں کا بنیادی اہم عہدوں جس میں محرر، ایس ایچ او وغیرہ ہیں پر ہونے کی بجائے صرف مرد اہلکاروں کو اہمیت دینا بھی سنگین مسئلہ ہے۔ فرض کریں اب اگر کسی خاتون کو رپورٹ درج کرانی ہو تو اول تو وہ پولیس تھانہ آئیگی بھی نہیں کیونکہ اسے پتہ ہے کہ آگے ہر جگہ مرد بیٹھے ہیں اور اگر وہ بے قصور بھی ہے تو اسے ہی شک کی نگاہ سے دیکھا جائےگا جیسے وہی جرمدار ہو اور طرح طرح کی باتیں سننا الگ، پھر اگر ہمت کرکے آ بھی جائے تو ایک مرد کے سامنے پوری بات کرنے سے قطرائے گی اور مثتغیث خاتون ان پڑھ ہو یا اس کا تعلق دیہات سے ہو تو پھر یہ ایک اور مسئلہ ہے کیونکہ ایسے لوگ لاعلمی کے سبب کچھ بھی بولنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ یہ انتہائی خوفزدہ ہوتے ہیں۔ لہذا محکمہ پولیس میں اس بات کو دیکھا جائے کہ جس طرح ہر تھانہ میں ایک مرد ایس ایچ او، محرر یا تفتیشی آفیسر ہوتا اسی نسبت برابری کی سطح پر ایک ایک خاتون اہلکار ہو تاکہ کوئی بھی خاتون پولیس تھانہ میں بلا خوف و خطر آکر اپنا مسئلہ بتائے اور پرچہ درج کرا سکے۔

رشوت خوری اور سیاسی اثرورسوخ کا خاتمہ

پولیس پر ریاستی باشندوں کی طرف سے جو الزام سب سے زیادہ  عائد کیا جاتا ہے وہ ہے رشوت اور سیاسی اثرورسوخ، جس کا خاتمہ بہت ضروری ہے اور اس کے لیئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہاں پر ہمیں ایک اہلکار کے مسائل بھی سوچنے چاہئیں یعنی کم تنخواہ اور زیادہ کام، دوسرا پولیس میں کھانا، پینا میڈیسن سب کچھ خود کے ذمہ ہوتا ہے چاہے آپ دوران ڈیوٹی ہی کیوں نہ ہوں۔ محکمہ پولیس کیلئے حکومت کو چاہیے کہ جس طرح فوج میں کھانا پینا اور میڈیسن وغیرہ فری ہے اسی طرح پولیس کو بھی یہ مراعات دی جائیں تاکہ ڈیوٹی پر کھڑا ایک پولیس اہلکار کم از کم اس مد میں رشوت طلب نہ کرسکے اور نہ یہ کہہ سکے کہ اسکے پاس تو کھانے کیلئے بھی کچھ نہیں ہے۔ اور اکثراوقات رشوت اس وجہ سے بھی عام ہوتی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے کام کیلئے عام آدمی بھی پولیس اہلکار کو چائے یا روٹی کے نام پر دو تین سو روپے دے دیتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ محکمہ کی طرف سےانہیں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں اور یہ وہ پہلی سیڑھی ہے جس سے رشوت عام ہوتی ہے۔ سیاسی اثرورسوخ بھی ایک مسئلہ ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ محکمہ پولیس میں ضلعی سطح پر جتنے بھی پولیس میں چھوٹے عہدے ہیں مثلا اہلکار سے لیکر ایس ایچ او، محرر، ڈی ایس پی تک انہیں زیادہ تر ایک ضلع کی حد تک رکھا جاتا ہے اور یہ وہیں کے مقامی لوگ ہوتے ہیں۔ اگر انکے تبادلے ہوتے بھی ہیں تو ایک ہی ضلع کے اندر اندر ایک تحصیل سے دوسری تحصیل یا ایک تھانہ، چیک پوسٹ سے دوسری چیک پوسٹ تھانہ تک محدود ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ اہلکار مقامی ہوتے ہیں تو ظاہر بات ہے ان کے ہر ایک کے ساتھ تعلقات اور رشتہ داریاں بھی  ہوتی ہیں اور یہی لوگ بار بار مقامی تھانوں میں گھومتے رہتے ہیں تو اس وجہ سے بھی عوام کی جانب سے ان کیخلاف شکایات کے انبار لگائے جاتے ہیں اور پولیس پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ ان دونوں مسئلوں کا مختصرا حل یہ ہے کہ نمبر ایک پولیس تبادلے صرف ضلع کی حد تک نہ رکھیں جائیں اور دوسرا انہیں تنخواہ میں اضافے سمیت وہ تمام مراعات فراہم کی جائیں جو باقی سیکورٹی اداروں کو حاصل ہیں۔ آخری بات یہ کہ چیک اینڈ بیلنس ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ جسکے لیئے روز مرہ کی بنیاد پر تھانہ میں آنے جانے والوں کی انٹری کی جائے اور پھر ان سے رابطہ کرکے انکی شکایت بارے پوچھا جائے کہ وہ کتنی حد تک متعلقہ پولیس تھانہ کی کاکردگی سے مطمئن ہیں، غیر مطمئن جواب کی صورت میں ملوث اہلکاروں کیخلاف کاروائی کی جائے۔

محکمہ پولیس میں جدید سہولیات کا نہ ہونا

پاکستان میں محکمہ پولیس کے پاس جدید سہولیات کا نہ ہونا بھی ایک گھمبیر مسئلہ ہے جیسے کہ پرانا اسلحہ، پرانی گاڑیاں۔ ضروری ہےکہ پولیس کو نئی گاڑیاں اور نیا اسلحہ جو جدید طرز کا ہو فراہم کیا جائے،  دوسرا دنیاء میں جیسے پولیس انویسٹیگیشن میں جدید ترین سہولیات ہیں جیسا کہ جیو فینسنگ یہ بھی ہمارے ہاں میسر نہیں ہے ، ابھی تک ہمارے تھانوں میں جدید ٹیکنالوجی کے بجائے وہی قلم کاغذ کا استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کمپوٹرائزڈ ایف آئی آر سسٹم آ گیا ہے۔ مطلب آپ کہیں سے بھی سوشل میڈیا، ویب سائٹ یا فون کے ذریعے اپنے متعلقہ تھانہ میں اپنی شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ لیکن ناصرف یہ بلکہ ہمارے ہاں پولیس کے پاس لوکیشن ٹریس کرنے یا دوسرے جدید ذرائع کے ذریعے ملزم تک پہنچنے حتیٰ کہ سی سی وی فوٹیج کا نظام بھی نہیں ہے۔ اور نہ اس طرف اس محکمہ میں کوئی توجہ دی گئی ہے وہی پرانا نظام لتر اور گالم گلوچ سے ملزم کے ساتھ پیش آنا۔

مختصرا یہ کہ پولیس عوام ساتھ ساتھ تب ہونگے جب مذکورہ بالا چیزوں پر عمل ہوگا اور دونوں میں قانون کی مکمل آگاہی، رابطہ، عزت احترام سے ایک دوسرے سے پیش آنا  اور ایک دوسرے کا احساس کرنے جیسی چیزیں آئیں گی۔

مصنف برطانوی ادارے دی انڈیپنڈنٹ (اردو) کیساتھ بطور صحافی منسلک ہیں۔ اور مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں۔