2020 کے امریکی صدارتی الیکشن میں موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہرا کر برسراقتدار آئے تھے۔ سابق صدر کی ہار میں کئی عوامل کارفرما تھے۔ ان میں سرفہرست بات تو یہ تھی کہ صدر ٹرمپ سیاسی ذہن کے بندے نہیں تھے بلکہ کاروباری بندے تھے اور مزاحیہ قسم کے انسان تھے۔ وہ سیاست کو مدنظر رکھے بغیر جو کچھ ان کے ذہن میں ہوتا اسے لگی لپٹی رکھے بغیر سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم کے ذریعے دنیا تک پہنچا دیتے اور اس میں سے اکثر باتیں وہ پہنچانے کے بعد سوچتے تھے کہ یہ شاید غلط کہہ دیا ہے۔
ان کے دور حکومت میں کورونا وائرس بھی پھیلا اور اسے شروع میں مناسب طریقے سے روکنے کی کوشش نہیں کئی گئی۔ اس کے علاوہ ایک افریقی امریکی شخص جارج کا سفید فام پولیس والے کے ہاتھوں بربریت پر مبنی قتل ہوا جس کو موجودہ صدر بائیڈن اور ان کی جماعت نے خوب اچھالا اور اس قتل کے بعد صدر ٹرمپ کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے اس معاملہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کو کوشش نہیں کی۔
اس سب کے باوجود صدر ٹرمپ کا پلڑا مضبوط دکھائی دیتا تھا کیونکہ وہ سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگاتے تھے، مگر پھر بھی الیکشن 2020 میں شکست ان کا مقدر بنی۔ چلیں خیر سابق صدر ٹرمپ جو ایک غیر سیاسی شخص تھے وہ تو ہار گئے اور ساری زندگی سیاست کی نذر کرنے والے بزرگ سیاست دان بائیڈن امریکہ کے صدر منتخب ہوئے۔
ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد عوام کی اکثریت بالخصوص امریکہ میں بسنے والی اکثریت کو امید تھی کہ یہ صدر سیاست کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اس لیے امریکہ کے مفاد میں پالیسیاں وضع کرتے ہوئے کام کریں گے۔ مگر امریکی عوام کی اکثریت اب ان کو دوبارہ صدر منتخب کرنے کے حق میں نظر نہیں آتی، یہاں تک کہ میں نے بذات خود کئی ایسے افراد سے پوچھا جو ٹرمپ کے خلاف بائیڈن کو ووٹ دے کر آئے تھے تو ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن کے مقابلہ میں جو بھی آیا اگلے الیکشن میں اس کو ووٹ دیں گے اور ان میں سے اکثر ٹرمپ کی واپسی کے حامی نظر آئے۔
موجودہ صدر کے ناکام دور صدارت کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر کروں گا۔ پہلی وجہ تو ان کی ذات سے متعلق ہے جو کہ بڑھاپے سے شروع ہو کر صحت سے متعلقہ معاملات تک جا پہنچتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں بڑھاپے کی وجہ سے الزائمر یعنی بات بھولنے کا مرض بھی لاحق ہونا شروع ہو چکا ہے۔
ان کے دور میں مختلف ممالک کے ساتھ معاملات سنورنے کے بجائے بگڑتے دکھائی دیے۔ ان ممالک میں روس، ایران اور چین سرفہرست ہیں جبکہ سعودی عرب اور پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات بعض مواقع پر کشیدہ دکھائی دیے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بھی اچانک کیا گیا جس کے نتیجہ میں کافی قیمتی فوجی سامان وہاں چھوڑ کر آنا پڑا جس سے کافی مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ روس اور یوکرین کی جنگ جو کہ ابھی بھی جاری ہے اس میں صدر بائیڈن کے دور صدارت میں حکومت نے یوکرین کو وقتاً فوقتاً کئی بلین ڈالر کی رقم مدد کے طور پر دی ہے اور ان عطیات کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ اس رقم کا صحیح جگہ مصرف ہونے میں بھی شکوک و شبہات ہیں جبکہ ان رقوم کا بوجھ امریکی باشندوں پر ٹیکس کی مد میں پڑ رہا ہے۔
اس کے علاوہ صدر مہنگائی کو کم کرنے کا اعلان تو گاہے بگاہے سوشل میڈیا کے ذریعے کرتے رہتے ہیں مگر اس میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آئی۔ ایک اور نعرہ جو صدر بائیڈن نے آنے سے پہلے لگایا تھا وہ یہ تھا کہ صدر آتشیں اور خودکار اسلحے پر پابندی لگا دیں گے مگر وہ اس سلسلے میں بھی ابھی تک بے بس نظر آ رہے ہیں۔
صدر بائیڈن نے ان امریکی طالب علموں کے لیے قرضے میں کمی یا معافی کا اعلان بھی کیا ہے جو ایک خاص حد تک قرضہ لے کر پڑھائی کر چکے ہیں مگر ان کے اس اعلان کی راہ میں سپریم کورٹ آ کھڑی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ عوام کی وہ تعداد جن کا اس قرضے سے کوئی تعلق نہیں وہ بھی صدر پر تنقید کر رہے ہیں کیونکہ آخر میں یہ رقم بھی حکومت تمام شہریوں سے ٹیکس یا مہنگائی کی مد میں اکٹھی کرے گی۔
یہ چند وجوہات ہیں جن کی بنا پر صدر بائیڈن اگر اگلے الیکشن کے لیے دوبارہ آتے ہیں تو ان کا شفاف طریقے سے جیتنا مشکل نظر آتا ہے مگر جمہوری نظام میں آخری فیصلہ عوام کا ہوتا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ عوام کیا فیصلہ کرتی ہے۔