دور دراز علاقوں میں صحافی تنخواہ کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہیں

کوئٹہ کے سوا بلوچستان کے 34 اضلاع میں مختلف نیوز ٹی وی چینلز کیلئے کام کرنے والے نمائندوں کو تنخواہیں نہیں دی جاتیں۔ اگر کوئی بڑا چینل کسی ضلع میں اپنے نمائندوں کو تنخواہ دیتا بھی ہے تو وہ انتہائی قلیل ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اضلاع میں صحافی کام کرنے کو تیار نظر آتے ہیں جبکہ ان علاقوں سے کبھی مشکل ہی سے کرپشن یاکسی بڑے سکینڈل کی خبر سامنے آتی ہے۔

دور دراز علاقوں میں صحافی تنخواہ کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہیں

بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن سے تعلق رکھنے والے مطیع اللہ نے جامعہ بلوچستان کے شعبہ ابلاغ عامہ سے صحافت کی ڈگری حاصل کرنے سے پہلے سوچا تھا کہ وہ شعبہ صحافت میں آ کر علاقے کے مسائل اجاگر کریں گے اور صحافت کی دنیا میں اپنا نام بنائیں گے لیکن ڈگری حاصل کرنے کے ایک سال بعد اُنہیں اندازہ ہوا کہ جیسا سوچا تھا میڈیا کی فیلڈ تو اس کے بالکل اُلٹ نکلی۔

کوئٹہ کے سوا بلوچستان کے 34 اضلاع میں مختلف نیوز ٹی وی چینلز کیلئے کام کرنے والے نمائندوں کو تنخواہیں نہیں دی جاتیں۔ اگر کوئی بڑا چینل کسی ضلع میں اپنے نمائندوں کو تنخواہ دیتا بھی ہے تو وہ انتہائی قلیل ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اضلاع میں صحافی کام کرنے کو تیار نظر آتے ہیں جبکہ ان علاقوں سے کبھی مشکل ہی سے کرپشن یاکسی بڑے سکینڈل کی خبر سامنے آتی ہے۔

مطیع اللہ کہتے ہیں کہ میڈیا سٹڈیز میں ایم اے کرنے کے بعد اُنہوں نے ایک نجی چینل میں انٹرن شپ کی جہاں بیورو چیف کے علاوہ کوئی رپورٹر نہیں تھا۔ انٹرن شپ ختم ہونے کے بعد بھی اُنہوں نے یہ سوچ کر کام جاری رکھا کہ انہیں نوکری مل جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور پھر وہ اپنے آبائی علاقے چمن واپس آ گئے جہاں ایک چینل کی نمائندگی کرنے پر انہیں ماہانہ 8000 روپے ادا کیے جا رہے تھے لیکن بعد میں ماہانہ معاوضہ بند کردیا گیا۔ اب مطیع اللہ نے ایک نئے شروع ہونے والے چینل کے ساتھ کام شروع کیا ہے جہاں اُنہیں ماہانہ 11 ہزار 9 سو روپے ملتے ہیں جس سے بمشکل اُن کے پٹرول کا ہی خرچ پورا ہوتا ہے۔ مطیع اللہ کے مطابق نئے آنے والے چینل کچھ عرصے تک نمائندوں کو تنخواہ دینے کے بعد تنخواہیں بند کر دیتے ہیں۔

مطیع اللہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے جرنلزم میں ماسٹرز کرنے کے بعد کئی نیوز چینلز میں سی وی دی تو کچھ چینل کے آؤٹ سٹیشن رپوٹرز (او ایس آر) انچارج کی جانب سے سکیورٹی کے نام پر اُن سے پیسے مانگے گئے تو کہیں ماہانہ پیسہ دینے کی شرائط رکھی گئیں جس کی وجہ سے اُن کا صحافت کا شوق مدھم پڑ گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب تو گھر والے بھی کہتے ہیں کہ 2 سال کوئٹہ میں تعلیم اور ہوسٹل کے اخراجات کے باوجود آپ سے کوئی فائدہ نہیں مل رہا، کم از کم اتنا تو کما لو کہ اپنا خرچ پوری طرح خود اُٹھا لو۔

بلوچستان کے مختلف اضلاع سے صحافت پڑھنے کیلئے آنے والے بیش تر ڈگری ہولڈر اپنے علاقوں میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرتے ہیں۔ کسی حد تک سوشل میڈیا پر اپنے سوشل اکاؤنٹس سے صحافت کرتے ہیں لیکن معاشی طور پر مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر صحافت ترک کر دیتے ہیں۔

مطیع اللہ کہتے ہیں کہ میڈیا کی معاشی صورت حال دیکھ کر کوئی اُمید نہیں ہے کہ اچھی تنخواہ ملے گی جبکہ چمن شہر افغانستان کی سرحد کے ساتھ ہے، یہاں امن و امان، تجارت سے متعلق اہم خبریں ہوتی ہیں لیکن میڈیا ہاؤسز کی اس جانب کوئی توجہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے کالجز کی سطح پر صحافت کا مضمون متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے لیے صحافتی ڈگری لینے والوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے جس سے بلوچستان کے تمام اضلاع میں کسی حد تک صحافیوں کی بے روزگاری میں کمی آئے گی اور وہ اپنی ڈگری کا فائدہ بھی اُٹھا سکیں گے لیکن ابھی تک کالجز کی سطح پر لیکچرارز کی کوئی آسامیاں مشتہر نہیں ہو سکی ہیں۔

میڈیا کی افادیت کو سمجھتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال نے بلوچستان کے تمام محکموں میں پبلک ریلیشنز آفیسر رکھنے کا کہا تھا اور تمام اداروں کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنانے کی تاکید کی تھی لیکن وزیر اعلیٰ جام کمال کی حکومت جانے کے بعد یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا اور اس حکم پر عمل دآرمد نہیں ہو سکا۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے اُس وقت کے ترجمان بابر یوسفزئی نے سرکاری کالجوں میں صحافت پڑھانے کیلئے لیکچرارز کی بھرتیاں نہ ہونے اور سرکاری دفاتر میں انفارمیشن آفیسرز کی بھرتیاں نہ ہونے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر بتایا کہ سابق وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے جب حکومت سنبھالی تھی تو بہت سے مسائل موجود تھے، سول سیکرٹریٹ کے ملازمین اور سرکاری اساتذہ تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ پروموشن اور دیگر الاؤنسز سمیت دیگر مطالبات کیلئے سراپا احتجاج تھے جن کے مسائل حل کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی اور پھر کوئٹہ میں گرین بس، صوبے میں ہیلتھ کارڈ سمیت کئی عوامی منصوبوں کیلئے اُنہوں نے کام کیا۔ اخبارات کے اشتہارات اور صحافیوں کی سرکاری کالونی کیلئے زمین کی فراہمی پر بھی عملی اقدامات کیے لیکن کئی کام وقت کم ہونے اور فنڈز کی کمی کے باعث آگے نہ بڑھ سکے جن میں لیکچراز اور انفارمیشن آفیسرز کی بھرتیاں شامل تھیں لیکن چند محکموں کیلئے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے انفارمیشن آفیسرز کی آسامیاں مشتہر کی گئی تھیں جن پر عمل دآرمد جاری تھا۔

نصیر آباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں اور اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے صحافت کرتے ہیں لیکن کئی جگہ مالی حالات آڑے آنے کی وجہ سے اُنہیں کہیں نہ کہیں کسی سے مالی مدد لینی پڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے پھر وہ بااثر افراد کے حق میں تو خبر چلاتے ہیں لیکن مروت میں اُن کے خلاف خبر نہیں چلا سکتے۔ گھر کے حالات کو دیکھتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی اُنہیں صحافت کے ذریعے اُجرت پیدا کرنی پڑتی ہے کیونکہ تنخواہ تو ادارے سے ملتی نہیں ہے جبکہ خبر چلوانے کیلئے بھی اُنہیں اکثر چینل میں بیٹھے لوگوں کو کبھی کبھی موبائل پیکج کروا کر دینا پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ علاقے میں روزگار کے کوئی مواقع موجود نہیں ہیں۔ مہنگائی میں گھر کا خرچ کس طرح پورا کر سکتے ہیں اور ویسے بھی اگر کسی کے خلاف خبر دیں تو جان کا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے اور جب ہم مارے جائیں تو جس ادارے کے لیے کام کرتے ہیں وہ بھی ہمیں اپنا تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارے لیے آواز اُٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا۔

مختلف اداروں کے ساتھ بطور کمیونیکیشن آفیسر کام کرنے والے میر وائس مشوانی کہتے ہیں کہ سیلاب کے دوران جب وہ بلوچستان کے ایک متاثرہ ضلع میں غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ بطور میڈیا ایڈوائزر کام کر رہے تھے تو اس دوران وہاں کے مقامی صحافی نے ان کے ادارے کے حوالے سے خاتون کے وائس اوور کے ساتھ چینل کا لوگو لگا کر ایڈٹ کیا ہوا تعریفی نیوز پیکج بھیجا جس میں خاتون کی اُردو بھی صاف نہیں تھی۔ اُس نیوز پیکج پر میر وائس نے شکریہ کا میسج بھیجا جس کے بعد اُنہیں مقامی صحافی نے کہا کہ کیسا لگا آپ کو؟ ہمارے ساتھ کچھ تعاون کریں۔ جس پر اُنہوں نے مقامی صحافی کو کہا کہ کس قسم کا تعاون؟ پہلے تو مقامی صحافی نے بلیک میلنگ کی کہ وہ سیلاب فنڈز میں کرپشن کے خلاف نیوز بنائیں گے جس پر اُنہیں کہا کہ بنا دو۔ جب بات نہ بنی تو مقامی صحافی نے کہا کہ اُنہیں اپنے ساتھ بطور کیمرہ مین رکھ لیں کیونکہ یہاں کوئی تنخواہ نہیں ہے۔ میر وائس مشوانی کہتے ہیں کہ بلوچستان کے بیش تر اضلاع میں کام کرنے کے دوران کسی نہ کسی طرح مقامی صحافیوں کی جانب سے کچھ مالی تعاون کی درخواست سامنے آتی رہی ہے۔

لاہور کے ایک سی کیٹگری کے چینل میں بطور او ایس آر انچارج کام کرنے والے فرد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شر ط پر بتایا کہ ان کے ادارے میں نمائندگان کو تنخواہ دینا تو دور کی بات، اُلٹا نمائندگان سے بھرتی کی فیس لی جاتی ہے۔ وہ اس سے قبل لاہور کے ہی 2 اور کیٹگری کے چینلز میں کام کر چکے ہیں جہاں یہی طریقہ کار تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک تو مالکان چینل پر پیسہ لگانا نہیں چاہتے اور دوسرا چینل کی اتنی آمدنی بھی نہیں ہے کہ تنخواہیں دی جا سکیں۔ یہاں ہیڈ آفس میں کام کرنے والے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے موجودہ ادارے میں مالکان نے نمائندگان بھرتی کرنے کیلئے سکیورٹی کے نام پر ناقابل واپسی فیس کم از کم 15 ہزار سے 30 ہزار مقرر کر رکھی ہے جس کے عوض نمائندگان کو کارڈ اور چینل کا لوگو دیا جاتا ہے۔ خبر چلانے کیلئے موبائل بیلنس لوڈ کروانے کے سوال پر اُنہوں نے کہا کہ ایسا اُنہوں نے کہیں نہیں دیکھا۔ نمائندگان سے صرف فیس لی جاتی ہے، فیس لیے بغیر بھرتی کیا جائے تو نمائندے کام نہیں کرتے۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر کوئی ڈیسک پر بیٹھا بندہ ذاتی حیثیت میں نمائندے سے خبر چلانے کیلئے موبائل بیلنس مانگتا ہے تو نمائندگان، ڈائریکٹر نیوز یا چینل کے کسی بڑے عہدیدار سے اس کی شکایت کریں۔

جامعہ بلوچستان کے شعبہ ابلاغ میں مختلف مضامین کے علاوہ صحافتی اخلاقیات پڑھانے والے لیکچرار ذاکر بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے مختلف اضلاع کے طلبہ اپنے علاقوں میں مثبت صحافت کرنے کا جذبہ لے کر شعبہ ابلاغ میں داخلہ لیتے ہیں۔ طلبہ کو پہلے سیمسٹر میں ہی صحافتی اخلاقیات اور اقدار سے آشنا کرایا جاتا ہے تاکہ وہ غیر جانبدار صحافت کر کے معاشرے میں بہتری لانے کیلئے عملی کردارادا کریں۔ یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافیوں کے معاشی پلان کیلئے کام کرے۔ لازمی بات ہے کہ اگر انسان کی ضروریات پوری نہیں ہوں گی اور اُسے اس کے کام کی اُجرت نہیں ملے گی تو وہ یا تو یہ پیشہ چھوڑ دے گا یا پھر وہ زرد صحافت کی جانب بڑھ جائے گا جو معاشرے کی بہتری کے بجائے نظام کی پستی کا باعث بنے گا۔

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری منظور احمد رند کہتے ہیں کہ میڈیا اداروں میں نمائندگان کو مفت کام کرنا ہی نہیں چاہئیے۔ بیش تر ایسے افراد ہیں جو خود اداروں سے کہتے ہیں کہ ہمیں صرف کارڈ اور مائیک دے دیں، تنخواہ نہ دیں ہم کام کریں گے جس کی وجہ سے صحافت کا مقدسہ پیشہ بدنام ہو رہا ہے۔ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کیلئے مقامی پریس کلب کے صحافیوں اور اداروں میں بیٹھے پروفیشنل لوگوں کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ صحافتی تنظیموں کی جدوجہد کے نتیجے میں حکومت نے پیمرا کے قانون میں یہ شرط ڈال دی کہ اب جو بھی ادارہ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو بروقت تنخواہ نہیں دیتا اور مسلسل دو ماہ کے واجبات ادا نہیں کرتا تو اس کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔

منظور احمد مزید کہتے ہیں کہ اخبارات میں ویج بورڈ ایوارڈ پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے بھی بھرپور جدوجہد کر رہے ہیں۔ کچھ اخبارات میں کسی نہ کسی حد تک اس پر عمل ہو رہا ہے تاہم تمام اخبارات میں ویج بورڈ ایوارڈ پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے جس پر ہماری کوششیں اور جدوجہد جاری ہے۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ہم یہاں نہیں رکے بلکہ حکومت اور اداروں کے مالکان بالخصوص اخبارات کی انتظامیہ سے ہمیشہ مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ میڈیا ورکرز کو بروقت اور مناسب اُجرت فراہم کرنے کے ساتھ مہنگائی کے تناسب سے سالانہ تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے جو میڈیا ورکرز کا حق بنتا ہے۔

نئے قانون کے مطابق نمائندگان کو دائرہ کار میں لانے سے متعلق سوال کے جواب میں بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکرٹری کا کہنا تھا کہ بیش تر اداروں کی جانب سے نمائندگان کو ادارے میں تعیناتی کا لیٹر ہی نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے وہ تنخواہ نہ دینے کا کیس بھی دائر نہیں کر سکتے جبکہ بدقسمتی سے مختلف اضلاع میں کام کرنے والے نمائندے سرکاری ملازم ہوتے ہیں اور صحافتی کارڈ سے صرف مفاد حاصل کر رہے ہوتے ہیں جس کے لیے سرکاری سطح پر چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہے۔