میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ پچھلے کئی سال میرا خیال یہی تھا کہ ہم سب مل کر اس نظام کو آہستہ آہستہ بہتری کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ مگر موجودہ حکومت کے سو دن مکمل ہونے کے بعد سے میں اپنی سوچ بدلنے پر مجبور ہوا۔ اب میں مسلسل یہ بات کہہ رہا ہوں کہ موجودہ جمہوری نظام ناکام ہو چکا ہے، اب ہمیں مل کر دوسری ریاست کی تعمیر کرنا چاہیے۔ اکثر لوگ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں میں مگر کچھ دوست جو سیاست اور آئین کی سمجھ رکھتے ہیں وہ یہ ضرور پوچھتے ہیں کے اب کیوں؟ کیا وجہ ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کے یہی مناسب وقت ہے ایک نئی ریاست کی تعمیر کا؟
https://www.youtube.com/watch?v=vB_eBL8MqdU
اب سے پہلے مجھے یہ امید تھی کہ پی ٹی آئی جس کو زیادہ تر متوسط اور شہری طبقے کی حمایت حاصل ہے وہ اگر الیکشن جیت جائے تو شاید اس نظام کی بہتری اور ایک فلاحی ریاست کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنا سکے۔ اسی امید پر میں نے بھی آٹھ سال پہلے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ مگر پارٹی میں شامل ہوتے ہوئے بھی میں نے اکثر اس بات کا اظہار کیا کہ پارٹی کا سرمایہ بھی عمران خان ہیں اور پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان بھی ان سے پہنچے گا۔
جب تک میں پارٹی میں رہا اس بات پر زور دیتا رہا کہ پارٹی کے انتظامی ڈھانچے کو مضبوط کیا جائے تاکہ عمران خان کی ذات میں جو کمی ہے اسے انتظامی صلاحیت سے پورا کیا جا سکے۔ مگر کئی سال کوشش کے بعد یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ عمران خان ایک کمزور لیڈر ہیں اور کچھ خاص قسم کے لوگوں سے بہت جلد مرعوب ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام لوگ تنظیم کو اپنے لئے ایک خطرہ سمجھتے تھے اور انہوں نے کبھی اسے آگے بڑھنے نہیں دیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=kAOCvR05vJE
مگر عمران خان سے زیادہ موجودہ صورتحال کے ذمہ دار پارٹی کے وہ سپورٹر ہیں جنہوں نے اپنا وقت اور پیسہ دیا۔ یہ سپورٹر ہر حال میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے چاہے اس کیلئے اصولوں، ضابطوں اور یہاں تک کے اخلاقیات کو بھی قربان کرنا پڑے۔ 2013 سے 2018 تک پی ٹی آئی کے ہر سپورٹر کی بس یہی خواہش تھی کے اقتدار چاہیے۔ مگر وہ بھول گئے کہ اگر ان کا مقصد پاکستان کو ایک فلاحی ریاست میں بدلنا تھا تو اقتدار کسی گٹھ جوڑ اور بے اصولی کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس مرحلے پر ان سے تین غلطیاں سرزد ہوئیں۔
پہلی یہ کہ ایک شخصیت پر بھروسہ کیا جبکہ تنظیم کی تعمیر کو مؤخر کر دیا اور جو تھوڑی بہت تنظیم تھی بھی اسے بھی برباد کر دیا۔ دوسری یہ کہ دوسری پارٹیوں کے وہ لوگ جن کے بارے میں عوام کی رائے اچھی نہیں تھی انہیں نہ صرف پارٹی میں قبول کیا بلکہ انہیں پارٹی معاملات بھی سپرد کر دیے۔
تیسری غلطی یہ کہ تیسرے امپائر سے شراکت داری کی جس سے حکومت حاصل کرنے کا راستہ تو ضرور ہموار ہوا مگر پارٹی ممبر یہ بھول گئے کے اقتدار کے کھیل میں تیسرے امپائر سے زیادہ تجربہ کار کوئی نہیں۔ ان کے پاس تنظیم بھی ہے، وسائل بھی ہیں اور روابط بھی۔ تیسرا امپائر کسی اور کیلئے نہیں اپنے مفاد میں اقتدار حاصل کرتا ہے۔ عمران خان واحد سیاستدان نہیں ہیں۔
ان سے پہلے نواز شریف اور بینظیر بھی یہ سمجھتی رہیں کے تیسرے امپائر سے گٹھ جوڑ کے بعد جو اقتدار حاصل ہوگا اس میں وہ اپنے اختیارات کا استعمال کر سکیں گے۔ زرداری صاحب کا مشہور قول ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اب تیسرا امپائر ان کا ہی دیا ہوا فارمولا استعمال کر رہے ہیں تو پی پی پی کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ مگر بار بار زخم کھانے کے بعد بھی ہمارے سیاستدان سبق نہ سیکھ سکے۔
https://www.youtube.com/watch?v=vt7hXpqRFqA&t=12s
آج ہم ایک دائرہ مکمل کرکے ایک دفعہ پھر جمہوریت کے نام پر ایک استحصالی نظام میں رہ رہے ہیں جہاں صرف بااثر طبقات ملکی وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور عوام صرف قربانی دینے اور بوجھ اٹھانے کیلئے رہ گئے ہیں۔
پی ٹی آئی ایک سیاسی تنظیم کے طور پر نہ پنپ سکی اور اس حکومت کی ناکامی کا مطلب ہے کہ متوسط طبقہ جو پی ٹی آئی کے ساتھ تھا اس ملک کو بدلنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ دوسری پارٹیاں جو کئی دفعہ باریاں لے چکی ہیں ان کے پاس اصلاحات کا نہ کوئی ایجنڈا ہے اور نہ ان میں صلاحیت ہے۔ بلدیاتی نظام میں نہ کوئی صلاحیت ہے، نہ اختیارات ہیں اور نہ ہی انہیں وسائل دیے جاتے ہیں۔ غرضیکہ موجودہ نظام کا ہر حصہ نہ عوام کیلئے کچھ کر سکتا ہے نہ ان سے کوئی امید لگائی جا سکتی ہے۔
اب ہمیں ایک عوامی تحریک کی ضرورت ہے جو ایک ایسا نظام وضع کرے جس سے پاکستان کے بہترین دماغ سیاست میں حصہ لے سکیں۔ ان کے پاس فیصلے کرنے کا اختیار بھی ہو اور وہ بلا تفریق ہر شہری کیلئے ریاست کے وسائل مساوی بنیادوں پر استعمال کریں۔