انسان کو ہے خدا لازم ، مسجد نہیں

انسان کو ہے خدا لازم ، مسجد نہیں
پاکستان بھی عجیب ملک ہے۔ یہاں کے گلی کوچے میں منطق کی ایسی پٹائی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ یہ نہیں کہ آج اور یہ بھی نہیں کہ صرف کرونا کے حوالےسے بلکہ پچھلے ستر سالوں میں ہر معاملے پر۔ ایوب کے دور کی نامردی والی روٹی سے لے کر اسامہ بن لادن کی فرضی موت تک مطلب کہ ایک سے ایک تھیوری اور ایک سے ایک کہانی گھڑی گئی۔ ایسی ایسی کہانی اور ایسا ایسا پلاٹ کہ اگر دماغ بند کرکے سنو تو سنسنی سے رونگٹے صرف کھڑے ہی نہیں لہرانے بھی لگیں۔ ہاں اگر دماغ اور عقل کے ساتھ سنو تو پھر بد مزاجی، چڑچڑا پن اور دیگر ایسے عوارض آپکو لاحق ہونے کا خطرہ موجود ہے.

اب کرونا کو کیا پتہ تھا کہ وہ ایسی سرزمین کا رخ کر چکا ہے کہ جہاں اسکو لے کر وہ وہ سازشی تھیوریاں گھڑی جائیں گی کہ خود کرونا وائرس  identity crisis  کا شکار ہوجائے گا۔ لیکن کیا کریں اب وہ پاکستانی قوم کے ہتھے چڑھ چکا، اب بھگتے۔

اب اسی سے دیکھئے، کہ ایک آفاقی تھیوری کے مطابق کرونا وائرس کفار اور خاص کر یہودیوں کی عالم اسلام کی مساجد بند کرانے اور باجماعت سلسلہ متروک کرانے کے لئے سازش ہے۔ کرونا مساجد میں پھیل ہی نہیں سکتا۔ یہ سب پراپیگنڈا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس تھیوری کے موجد کون ہیں یہ معلوم نہیں تاہم اس کے ماننے والے یہ مانتے ہیں کہ کفار کو یہ بھی معلوم ہے کہ پاکستان کی کس گلی میں کونسی مسجد ہے اور وہ ان مساجد پر تالے پڑے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق سعودی حکومت یہودیوں کے ساتھ مل چکی ہے اور اس نے مغربی طاقتوں سے ساز باز کرکے حرم اور مسجد نبوی کو بند کرادیا۔ بہرحال اس تھیوری پر امکان ہے کہ پاکستان کی جامعات میں جمعیت طلبہ اسلام سے منسلک کوئی طالب علم جلد ہی مقالہ بھی لکھ مارے اور  پھر اگلے پچاس سال وہ مستند ریسرچ کے طور پر مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دینے میں استعمال ہو۔ 

اب ایسے میں کہ آج جمعہ ہے اور ملک کے چار پانچ بڑے شہروں کے علاوہ  تمام جگہوں پر با جماعت نماز جمعہ جاری ہے یہ اندزہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ عبادت گاہیں اس ملک میں کتنی بھانک تباہی کا مرکز بن رہی ہیں۔ اسکے جواب میں کہا جاتا ہے کہ آپ اس کے پیچھے ہی پڑے ہیں۔ گراسری سٹورز کو کوئی بند نہیں کراتا۔ ان کے لئے عرض ہے کہ کوئی بھی انسانی سرگرمی جس مرضی جگہ پر ہو اور جس مرضی کام کے لئے ہو اگر وہ انسانی زندگی کے ضیائع کا باعث بن سکتی ہے ملک  کی آبادی کو موذی مرض کا شکار کر سکتی ہے اسے بند ہوجانا چاہئے اور  ان تمام سروسز کا  جو وہ مہیا کرتے ہیں انکا متبادل نظام سامنے آنا چاہئے۔

ایک چھوٹے شہر میں موجود ہوتے اور ان تمام  لغو باتوں کا ادراک رکھتے ہوئے جو کہ چھوٹے شہر میں مولوی حضرات صرف اپنی روٹی بچانے کے لئے اس عالمی وبا کے عین بیچوں بیچ  کرتے ہوئے مسلسل گمراہی کا باعث بن رہے ہیں،  یہ سمجھنا ہم سب کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے لئے خدا لازم ہے، مسجد نہیں۔ خدا سے ہم کہیں بھی معافی طلب کر سکتے ہیں، نماز کہیں بھی پڑھ سکتے ہیں خدا تو رواں ہے ، وہ قائم ہے وہ دائم ہے۔ وہ کسی عمارت میں قید نہیں ہے اور نہ ہی اسکا محتاج۔ وہ تو اس عالم پر چھایا ہوا ہے۔ ہاں یہ وہی لوگ ہیں جن کو ڈر ہے کہ مسجد بند ہوگئی تو وہ اہمیت کھو دیں گے۔ ایک بڑھئی سنار، کیمیا دان داکٹر تو کچھ بھی کر لے گا یہ کیا کریں گے؟ تاریخ شاہد ہے کہ ان کے یورپی 'پیٹی بھائی' بھی چودہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک طاعون کے ہاتھوں مرنے والے عوام کے ساتھ یہی کچھ کرتے رہے تھے۔ پھر خود بھی فنا ہوئے، مذہب کو رسوا کیا اور معاشرہ آزاد ہوا۔ اب یہ بھی اس خوف تلے پوری قوم کو کرونا کے منہ میں دھکیلنے کو تیار ہیں۔ اس لئے ان سے بچیئے۔ جمعہ گھر میں ادا کیجئے اور اللہ سے اسکی پناہ اور عافیت مانگیئے۔