البرٹ کیمیو( Albert Camus) کی کتاب “دی پلیگ” کا ڈاکٹر برنارڈ ریو (Bernard Rieux) آج بے سبب یاد نہں آ رہا۔ وہ جو اس خیال سے تشفی پاتے ہیں، اور اس کو وجہ بنا کےتسلی بھی دیتے ہیں کہ کرونا وائرس سے ’صرف‘ بوڑھے اور بیمار لُقمعۂ اجل بنتے ہیں، اُنکے لئیۓ ڈاکٹر برنارڈ ریو کا کردار کِس قدر اجنبی ہو گا!
ڈاکٹر ریو، جو طاعون کے سب مریضوں کا بڑی جانفشانی سے علاج کرتا ہے۔ ہربچے، جوان، بوڑھے کا، اُن کا بھی جو مَر نے کے قریب ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے راجرر کوہن (Roger Cohen) کرونا وائرس کے تناظر میں لکھے اپنے کالم ’A Silent Spring‘ میں ڈاکٹر برناڈ ریو کی صلۂ رحمی سے بے نیاز شخصیت کو اُسکی پیشہ وارانہ ذمہ داری سے وفاداری کے محدب سے پرکھتے ہیں: ڈاکٹر اُس ہسپتال میں مریضوں کو چھوڑ کر نہیں جاتا ٖجہاں سےعملہ جا چُکا۔ طاعون سے موت اُس پر شکنجہ کسنے کو تیار ہے،تب صحافی اُس سے decency، یعنی رواداری کا مطلب پوچھتے ہیں۔ ڈاکٹر کہتا ہے: ’رواداری اپنی ڈیوٹی ادا کرنا ہے‘!
اس دُنیا میں کتنی دُنیائیں ہیں! ایک وہ ، جہاں انسان دوستی اورفرائض ِمنصبی سے ایسے گہرے رشتے استوار کرنے کے قرینے ہوں۔اور دوسری وقت کے بادشاہوں کی۔جن کے فہم انسان کی قدر حقوقِ انسانی کے پیمانے سے نہیں بلکہ ضعف کے طول وارض سے ناپتے ہیں۔
ناپ تول کی دُنیا کے تاجدار امریکی صدر ٹرمپ لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے کے اصول ایک لحظہ مان کر دوسرے لمحے ان پر سوال اُٹھا دیتے ہیں۔ مارکیٹ کے گرنے کو صحت پر فوقیت دیتے یہ وقت آ گیا کہ آج امریکہ اُن مُمالک میں سرِ فہرست ہے جہاں کرونا وائرس پوری طاقت سے حملہ آور ہے۔ کیاآزاد دُنیا کےسُرخیل امریکہ کو نااہل ،خود پسند،اور رحم سے ناآشنا حکمران کے رحم و کرم پَر چھوڑ دیاجاۓ گا؟ بقول کوہن کیا آزوردگی سی آزوردگی ہے اِس سہمی سہمی بہار میں!
کاروبار بمُقابلہ صحت کی بحث کو انجان اور وفادار پیروکاروں میں اُنکی معاشی مجبوریوں کی آڑ میں بیچا جا ر ہاہے۔ پوپیلسٹ (populist) سیاست کا یہ وائرس ہمارے اربابِ اختیار کو بھی گھیر چُکا ہے۔ بروز پہلی اپریل اسدعمر بطور حکومتی ترجمان بظاھر لاک ڈاؤن کی افادیت کو مان گئے۔ وزیر اعظم عمران خان کے نزدیک یہی رہا کہ انفلوینزہ جیسی یہ بیماری صرف بوڑھوں اور بیماروں کومارتی ہےٖ۔ پہلی اپریل کےخطاب میں کرونا وائرس ٖکی تباہ کاریوں کو اُنہوں نے گو اشارتاً تو مان لیا۔ لیکن پھربھی لاک ڈاؤن کی پُرجوش حمائیت نہ کر پائے۔سوال یہ ہے کہ لاک ڈاؤن اور کرونا وائرس کی باریکیوں سے نابلد عوام کو وزیر اعظم اپنے گو مگو سے تَذبذب کی اذیت کیوں دے رہے ہیں؟
کیا وزیرِ اعظم ازلی بانکپن اور ضِد سے کام لےرہے ہیں یا اُنکو حالات کی سنگینی کا ابھی تک احساس نہیں؟
دُنیا کا کوئی مُلک، ترقی یافتہ یا پسماندہ، لاک ڈاؤن کے اقتصادی نُقصان کامُتحمل نہٖں ہو سکتا۔ پھر بھی ان مُمالک میں لاک ڈاؤن کیوں کیا گیا؟McKinsey جیسا بین الاقوامی ادارہ، اور دنیائے سیاست، صحافت ، اور دانش کے اکابرین متواتر خبردار کر رہے ہیں کہ یہ غیرمعمُولی بحران غیرمعمُولی عمل اور حل کا متقاضی ہے۔ جان لیوابحران تمام دنیا، بشمُول امریکہ اور پاکستان، کو گھیر چُکا ہے۔ بیشتر اقوام لاؔک ڈاؤن جیسے بظاھر counter productive حل ٖؔپر مُتفق ہیں۔اس انتہائی قدم کو اُٹھانے کے بارے میں نیو یارک یونیورسٹی کے بایو ایتھکس ٖؔکے پروفیسرآرتھر کپلان کہتے ہیں کہ اگرمعیشت کو بنیاد بنا کر لاک ڈاؤن میں نرمی برتی تو اموات کے جو پہاڑ لگیں گے اُسکی ذمہ داری بھی اُٹھانی ہو گی۔ بِل گیٹس نےبھی خبر دار کیا کہ معیشت لاشوں پر تعمیر نہیں کی جا سکتی۔
بوڑھے اور بیماروں کو کرونا وائرس سے مرنے کے لئیے چھوڑ دینا سوشل ڈارنیوزم (social Darwinism) کا سنگدلانہ رویہ ہے۔جسکی آج کی دُینا میں، جہاں انسانی حقوق سے معاشرے عزت اور ترقی یافتہ ہونے کی سند پاتے ہیں کوئی گُنجائش نہیں۔ اس رویئے کیٖ پاسداری کرتے ہوئے درمیانے راستے وضع کیۓ جا رہے ہیں۔
اسی ضمن میں ہارورڈ یونیورسٹی کے پولیٹکل فلاسفر مائیکل سینڈل کی لاک ڈاؤن کی تدریجی حکمتِ عملی مُفید اور سادی ہے۔ ۱) لاک ڈاؤن کرونا وائرس کےشکار لوگوں کو الگ رکھ کر بیماری سے ٹھیک ہونے اور دوسروں کو بیماری سےبچانے کے لئے سودمند ہے۔ ۲) یہ وقت ڈیٹا اکھٹا کرنے میں معاون ہوگا کہ اس وائرس کا شکار کون سی عمر کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ تاکہ مُسقبل میں علاج اور معیشت کیٖ پالیسی مضبوط بنیاد پر بنائی جائے۔ ۳) ہسپتالوں ٖمیں صحت کی سہولتوں کو معیاری سطع تک پہنچانے میں یہ وقفہ کام آئے گا۔ ۴) یہ پالیسی اور پلاننگ بخوبی ہو سکتی ہے کہ کیسےصحت مند لوگ مُنظم طریقے سے کام پر واپس آئیں۔
جبکہ وزیرِ اعظم عمران خان ان تمام علمی کاوشوں کے تکلفات سے بے نیاز پوپلسٹ سیاست میں قید ’چیتا فوج‘ کو میدان میں اُتار نے کیٖ فقط ابھی تیاری کر رہے ہیں۔
کوئی اُن کو یہ بتائے کہ کرونا سے جنگ آج ہے کیونکہ “کل“ نہیں ہے!