محسن نقوی چاہتے تو وزیر اعظم بھی بن سکتے تھے؛ رانا ثناء اللہ

سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ وزارت داخلہ سے بڑھ کر بھی محسن نقوی چاہیں تو ان کو مل جائے گا۔، ان لوگوں کو چھوٹا نہ سمجھیں۔ وہ جو چاہیں بن سکتے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی۔ محسن نقوی وزیراعلیٰ پنجاب رہے ہیں جو چھوٹی بات نہیں ہے۔

محسن نقوی چاہتے تو وزیر اعظم بھی بن سکتے تھے؛ رانا ثناء اللہ

محسن نقوی چاہتے تو وزیراعظم بھی بن سکتے تھے۔ یہ تو ان کی مہربانی ہے کہ  وہ وزیرداخلہ بن گئے اور اسی پر اکتفا کیا ہوا ہے۔ یہ کہنا تھا سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا۔

نجی ٹی وی ایک نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ نے بتایا  کہ حکومت وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب اور وزیرداخلہ محسن رضا نقوی کو اہم عہدوں سے دور رکھ رہی ہے، وزیرخزانہ کو مشترکہ مفادات کونسل سے دور رکھا گیا ہے اور وزیرداخلہ محسن نقوی کو ای سی ایل کمیٹی سے دور رکھا گیا ہے، جس سے منظوری کے بعد کسی کا نام ای سی ایل میں جائے گا یا نکلے گا، اس کی کیا وجہ ہے؟

حکومت وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب اور وزیرداخلہ محسن رضا نقوی کو اہم عہدوں سے دور نہیں رکھ رہی۔ وزیرداخلہ محسن نقوی کو ای سی ایل کمیٹی سے دور نہیں رکھا گیا۔ کسی جگہ سے ان کو دور نہیں رکھا گیا ہے۔ وہ ہر جگہ پر موجود ہیں اور ہرجگہ پر ان کو رکھا گیا ہے۔ اب فیصل واوڈا کو سینیٹر بنا دیا گیا ہے۔  پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے مل کر ان کو ووٹ دیا ہے۔ انوارالحق کاکڑ کو دیکھ لیں، وہ  بلوچستان سے ہیں اور ان کے پیچھے کوئی پارٹی نہیں ہے، تو کچھ لوگ بڑے ضروری ہوتے ہیں نظام کو آگے چلانے کے لیے۔

اینکر سید علی حیدر نے سوال کیا کہ سمجھ نہیں آیا کہ محسن نقوی کب سے ن لیگ کے لیے ضروری ہوگئے تھے؟ اس کے پیچھے کیا راز ہے؟ اس پر رانا ثناء اللہ  نے کہا کہ کیا آپ کو نہیں معلوم؟ یہ تو ساری دنیا کو معلوم ہے۔ اگر بتا دیا جائے تو پھر راز کیا رہ جائے گا۔

ایک اور سوال کیا گیا کہ منتوں مرادوں سے محسن نقوی کو مانگا گیا لیکن اس کے بعد ان کو ای سی ایل کمیٹی سے نکال دیا گیا۔ آپ خود وزیرداخلہ رہے ہیں، اگر آپ ای سی ایل کمیٹی میں نہ ہوتے تو آپ یہ سوال تو پوچھتے کہ آپ وزیرداخلہ ہوں۔ آپ کو ای سی ایل کمیٹی کا حصہ ہونا چاہیے۔ تو پھر محسن نقوی کو آدھا ادھورا عہدہ کیوں دیا گیا ہے؟

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جواب میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ یہ پرانی پریکٹس جاری ہوگئی ہے۔ میرے خیال میں انہیں ای سی ایل کمیٹی میں ڈال دیا جائے گا۔ میں بھی جب وزیر داخلہ بنا تھا تو میں بھی ای سی ایل کمیٹی میں نہیں تھا کیونکہ اس وقت میرا نام ای سی ایل میں تھا تو اس وقت کے وزیر قانون کو ای سی ایل کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا۔ بعدازاں میرا نام ای سی ایل سے نکالا گیا تو مجھے یہ بات مناسب نہیں لگی کہ میں اسی کمیٹی کی سربراہی کروں اور معاملات جیسے چل رہے تھے ویسے چلنے دیے۔ دوسری صورت میں محسن نقوی کو کمیٹی سے دور رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اگر وہ چاہیں گے تو اس کمیٹی میں آجائیں گے اور اس کمیٹی کی سربراہی بھی ان کو مل جائے گی۔

سابق وزیرداخلہ نے کہا کہ اس سے بڑھ کر بھی محسن نقوی چاہیں تو ان کو مل جائے گا۔، ان لوگوں کو چھوٹا نہ سمجھیں۔ ان کو طیش نہ دلائیں۔ ہمارے ان کے ساتھ بہت برادرانہ تعلقات ہیں۔ ان کو اس کمیٹی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ ان کا خیال رکھا جائے گا۔ ان کے ساتھ مل کر ہم کام کرنا چاہتے ہیں۔

اینکر نے سوال کیا کہ آپ کو محسن نقوی سے اتنا پیار کیوں ہے؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ ان کو اس سے بھی بڑا عہدہ مل جائے گا۔ وزیرداخلہ سے بڑا عہدہ وزیراعظم ہی ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں رانا ثناءاللہ نے کہا کہ ان کی مہربانی ہے کہ وہ وزیراعظم نہیں بننا چاہتے اور انہوں نے وزیرداخلہ پر ہی اکتفا کیا ہوا ہے۔ وہ جو چاہیں بن سکتے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی۔ محسن نقوی وزیراعلیٰ پنجاب رہے، جو چھوٹی بات نہیں ہے۔ دوبارہ بھی بن سکتے ہیں۔

رانا ثناءاللہ نے کہا کہ اکیلے محسن نقوی اہم نہیں ہے، فیصل واوڈا کا کراچی سے سینیٹر بننا کوئی چھوٹی بات ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا ایک ہی شخص کو ووٹ دینا بھی چھوٹی بات نہیں۔ آپ صرف محسن نقوی کو رگڑا نہ لگائیں۔ اور لوگ بھی ہیں۔یہ معجزات ہمیشہ ہوتے رہے ہیں۔