آج کل اسحقٰ ڈار اپنے بی بی سی کو دیئے جانے والے انٹرویو کی وجہ سے پاکستان کے میڈیا کے لیئے حلال ہو چکے ہیں۔ گو کہ حد قائم کرنے کے لیئے پیمرا نے ان چینلز کو پوچھ لیا ہے کہ آپ نے اسحٰق ڈار کا انٹرویو دوبارہ سے نشر کیوں کیا؟ لیکن پھر بھی وہ جو کہتے ہیں کہ زبان سے گالی اور بندوق سے گولی نکل جائے تو پھر واپس نہیں آتی۔ بہر حال اس ملک کے کرتا دھرتاؤں کو نجانے اسحٰق ڈار سے ایسی کیا نفرت ہے کہ انکے چہرے کو ٹی وی سکرینوں پر نہیں دیکھ سکتے۔
جب سے ڈان لیکس ہوئی اسحٰق ڈار کے انٹرویوز صرف آج نہیں بلکہ پہلے بھی پاکستان کے صحافیوں کو مہنگے پڑے ہیں۔ اسی حوالے سے ملک کے معروف صحافی حامد میر نے ایک کالم لکھا ہے جس میں وہ صحافی نسیم زہرہ اور انکے چینل کی مشکلات کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے کچھ سال قبل ہی لندن میں اسحٰق ڈار سے کیا تھا۔ اس انٹرویو میں اسحقٰ ڈار نے ان وجوہات سے معمولی سی پردہ کشائی کی تھی جو ان سے مقتدرہ کی نفرت کا باعث ہیں۔
انہوں نے اپنے خانساماں کے اغوا کا ایک واقعہ بھی سنایا تھا جس کے ڈانڈے ان کے بقول طاقتور مگر خفیہ اداروں سے ملتے تھے اور یہ سب اس وقت کے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کروانے کے لیئے تھا کیوں کہ ان کی اگر ایکسٹینشن ہوتی تو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اگلی بار چیف کے عہدے پر آنے کے امیدوار ہوتے۔
تاہم اس انٹرویو کے بعد کس طرح نسیم زہرہ کی نوکری کو نشانے پر رکھا گیا اور کس طرح انکے چینل(وہ اس وقت 24 نیوزپر تھیں) کو متعدد بار بندشوں کا سامنا کرنا پڑا، حامد میر اس بارے میں لکھتے ہیں کہزیادہ پرانی بات نہیں‘معروف پاکستانی صحافی نسیم زہرہ نے لندن میں اسحاق ڈار سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا جو ایک نجی چینل پر نشر ہوا۔اس انٹرویو میں نسیم زہرہ نے اسحاق ڈار سے ہر قسم کے سوالات کئے اور سابق وزیر خزانہ کو بتانا پڑا کہ ان کا خانساماں کس نے اغواء کیا تھا ۔
اس انٹرویو کے بعد نسیم زہرہ اور ان کے ٹی وی چینل کیلئے مشکلات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔متذکرہ چینل کی انتظامیہ کو حکم دیا گیا کہ نسیم زہرہ کو نوکری سے نکال دیا جائے ۔
چینل کی انتظامیہ نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا جس کے بعد اس چینل کے خلاف پیمرا نے بار بار کارروائی کی ۔پیمرا نے ایک طرف اسحاق ڈار کے انٹرویوز اور بیانات نشر کرنے پر پابندی لگا دی، دوسری طرف مذکورہ چینل کو بند کر دیا۔
پچھلے اڑھائی سال میں اس چینل کو چار مرتبہ بند کیا جا چکا ہے ۔آخری بندش 90دن تک جاری رہی اور یہ بندش لاہور ہائیکورٹ کے حکم سے ختم ہوئی ۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں بھی یہ چینل زیرِ عتاب رہتا تھا ۔اس چینل کی انتظامیہ نسیم زہرہ کو فارغ کردیتی تو چینل کیلئے کوئی مشکل کھڑی نہ ہوتی لیکن اسحاق ڈار کا ایک انٹرویو اس چینل کو بہت مہنگا پڑا۔یہ صرف ایک پاکستانی چینل کی کہانی نہیں ہے ۔
پچھلے اڑھائی سال میں ایک نہیں‘ کئی پاکستانی ٹی وی چینلز سے منسلک متعدد صحافیوں کو نوکری سے فارغ کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا ۔کچھ چینلز نے دباؤقبول کر لیا، کچھ نے دباؤ قبول نہیں کیا ۔
جنہوں نے دباؤ قبول نہیں کیا انہیں جھوٹے مقدمات میں الجھا کر عبرت کی مثال بنانے کی کوشش کی گئی۔سٹیفن سیکر اور ان کا ادارہ خوش قسمت ہے کہ انہیں کبھی ایسے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جن حالات کا سامنا نسیم زہرہ اور ان کے چینل کو کرنا پڑا۔ برطانیہ میں صحافت آسان‘ پاکستان میں مشکل ہے ۔