Get Alerts

کارگل جنگ: پاکستان میں فیصلہ سازی کیسے ہو رہی تھی اور کون کہاں کھڑا تھا؟ نسیم زہرہ کی کتاب 'فرام کارگل ٹو دی کُو' سے اقتباس

کارگل جنگ: پاکستان میں فیصلہ سازی کیسے ہو رہی تھی اور کون کہاں کھڑا تھا؟ نسیم زہرہ کی کتاب 'فرام کارگل ٹو دی کُو' سے اقتباس
کتاب کا نام: From Kargil to the Coup

مصنفہ: نسیم زہرہ

باب نہم: Myth-Making and Crisis Management 

صفحہ: 208-214

ترجمہ: محمد عبدالحارث

پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ دنیا کے بلند ترین جنگ کے میدان میں انڈیا اپنے فوجی، لاجسٹکس، آرٹلری، اور مشہورِ زمانہ بوفورز توپوں کو لے آیا تھا۔ نئی دلی میں بھارت دنیا بھر کی سفارتی حمایت حاصل کرنے میں مصروف تھا تاکہ پاکستان سے کارگل کی پہاڑیاں خالی کروائی جا سکیں۔ اُس وقت جبکہ انڈیا اپنی تمام جنگی مشینری پاکستان کے آپریشن KP (کوہِ پیما) کا مقابلہ کرنے کے لئے لے آیا تھا، پاکستان کے لئے بھارت کا پیغام تھا کہ پاکستانی وزیرِ خارجہ کو نئی دہلی میں خوش آمدید نہیں کیا جائے گا۔ بھارت اُس وقت تک پاکستان سے کوئی بات چیت نہیں کرے گا جب تک پاکستان اپنی فوجیں واپس نہیں بلا لیتا۔ جسونت سنگھ کی سرتاج عزیز سے 12 جون کو جو ملاقات ہوئی تھی، بھارت اُس کو پاکستان اور ہندوستان کے مابین مذاکرات سے تعبیر نہیں کرتا تھا بلکہ اُس ملاقات میں انڈیا نے پاکستان سے اپنی فوجیں کارگل سے واپس بلانے کے لئے کہا تھا۔ واجپائی حکومت ہر حال میں کارگل سے پاکستانی دستوں کی واپسی چاہتی تھی۔

آپریشن KP ( کوہ پیما) کے اثرات کھل کر نمایاں ہونے لگے تھے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں پاکستان کو کشمیر کے معاملے میں جو فوائد حاصل ہونے کی اُمید تھی وہ اب نقصان میں بدلنے لگے تھے۔ پاکستان میں کیبنٹ کے وزیر چہ مگوئیاں کر رہے تھے کہ آپریشن کوہ پیما کو اب ختم ہونا چاہیے۔ بیرونِ پاکستان دوست و دشمن سب پاکستان کے کارگل سے نکلنے کے منتظر تھے۔ 

بارہ جون تک وزیرِاعظم اور اُن کی ٹیم نے کچھ ریزرویشن کے ساتھ آرمی کے گیم پلان کا ساتھ دیا تھا جو کہ کچھ اس طرح تھا کہ کارگل کے چھن جانے کے نتیجے میں ہندوستان کو جو Leh اور سیاچن کے علاقے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اُس کے ذریعے بھارت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے گی کہ پاکستان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کر کے کشمیر کے مسئلے کا حل نکالے۔ یا دوسری صورت میں کم سے کم بھارت سیاچن کا قبضہ ختم کرے جس پر بھارت نے شملہ سمجھوتہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قبضہ کر لیا تھا۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان نے اپنی سفارتی اور سیاسی پوزیشن یہ اختیار کی تھی کہ ''یہ پاکستانی فوج نہیں بلکہ حریت پسند ہیں جنھوں نے کارگل کی پہاڑیوں پر قبضہ کیا ہے۔ ایل او سی کی اچھی طرح سے حد بندی نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں مل کر بیٹھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کو اچھی طرح سے وضع کیا جاسکے۔ ہمارے فوجی ایل او سی کی پاکستانی سائیڈ پر ہیں۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ بھارت کو پاکستان سے بات چیت پر آمادہ کرے۔ اگر بھارت بات چیت پر آمادہ ہوتا ہے تو پاکستان بھی حریت پسندوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اُن سے کارگل خالی کرنے کا کہے گا''۔

دلچسپ طور پر آرمی اور سویلین کی کارگل کی صورتحال کی عکاسی کرنے میں فرق پایا جاتا تھا۔ اس اختلاف سے کنفیوژن زیادہ پھیلا۔ آرمی پریس کو اپنی پسِ پردہ بریفنگ میں یہ بتانے کی کوشش کرتی تھی کہ کارگل پر قبضہ 1984 میں بھارت کے سیاچن پر قبضے کی طرح ہے۔ آرمی کو توقع تھی کہ عالمی برادری کارگل پر قبضے کو بھارت کے سیاچن پر قبضے کی طرح قبول کر لے گی۔

پاکستان نے جس طرح سے لائن آف کنٹرول کا غیر واضح ہونا دنیا کو بتانے کی کوشش کی تھی اُس کا اُلٹا ہی اثر ہوا تھا اور پاکستان دنیا کو یہ بتانے میں کہ لائن آف کنٹرول کوئی واضح بارڈر نہیں ہے ناکام رہا تھا۔ لائن آف کنٹرول ایک غیر واضح بارڈر تھا جس کی پاکستان اور بھارت نے اپنی اپنی تشریح کر رکھی تھی۔ یہ کوئی ایسی لائن نہیں تھی جسے زمین پر بنایا گیا ہو۔ یہ نقشے پر کھینچی گئی ایک لکیر تھی جس کو بھارت اور پاکستان اپنی اپنی نظر سے دیکھتے تھے۔ گرمیوں میں دونوں ممالک کی فوجیں بلندی پر موجود پوسٹوں کو خالی چھوڑ کر نیچے چلے آتے تھے جبکہ سردیوں میں واپس اپنی جگہوں کو سنبھالتے تھے اور ایسا 1972 کے بعد سے 1999 تک پچیس سال تک ہوتا چلا آ رہا تھا۔ یہ پاکستانی اور بھارتی فوج کے درمیان بغیر لکھا ہوا معاہدہ تھا جو پاکستان نے توڑ دیا تھا لیکن ہندوستان نے بھی سیاچن پر قبضہ کر کے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی تھی۔

دنیا کے اہم دارالخلافوں میں البتہ فضا پاکستان کے خلاف تھی۔ پاکستان کے قریب ترین اتحادی یعنی چین نے بھی اس معاملے پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ سرتاج عزیز کے ہنگامی دورہ سے بھی پاکستان کو چین کی حمایت نہیں ملی تھی۔ چین نے بھی پاکستان کو ہندوستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر دو طرفہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا اور واضح کر دیا کہ پاکستان کو کارگل خالی کرنا پڑے گا۔ اُس زمانے میں چین بھارت سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لئے کوشاں تھا۔ بیجنگ قطعی طور پر پاکستان کی کارگل میں کی گئی پیش قدمی کی حمایت کر کے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ درحقیقت پاکستانی وزیرِ خارجہ کے دورہ چین کی شام چین نے کارگل کے معاملے میں اپنی نیوٹرل پوزیشن کا اعلان کیا اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری کی دلچسپی ظاہر کی۔ کارگل کے اوپر چین نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس پر چین، پاکستان، اور بھارت کے وزیرِ خارجہ بات کر سکتے ہیں۔ جبکہ 14 جون کو ہونے والے بھارتی وزیرِ خارجہ کے دورہ کے بارے میں چین کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں سے چین اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ وطن واپسی پر سرتاج عزیز نے بیان دیا کہ دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر پیدا ہونے والی کشیدگی کم ہو اور جموں و کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔

دہلی میں سرتاج عزیز کو بات چیت کا کوئی موقع میسّر نہیں آیا اور بھارت پوری دنیا کی حمایت کے ساتھ پاکستان پر لائن آف کنٹرول کا احترام کرنے پر زور ڈال رہا تھا جس نے اسلام آباد کو بے سکون کرنا شروع کر دیا تھا۔ اب یورپ کا موقف بھی بھارت اور امریکہ کے ہم آہنگ ہو گیا تھا۔ مثال کے طور پر فرانس کے وزارت خارجہ کے آفس کے سیکریٹری جنرل نے پاکستانی سفیر کو طلب کیا جس میں اُن کا لہجہ نرم لیکن مستحکم تھا۔ اُن کے مطابق کارگل کے حوالے سے فرانس کا موقف آزاد فرانسیسی ذرائع اور فرانسیسی انٹیلیجنس سے حاصل شدہ معلومات پر مبنی ہے۔ فرانس کے مطابق صورتحال میں جو بگاڑ آیا ہے وہ خطہ کو جنگ کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ فرانس پاکستان کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتا کہ کارگل پر مجاہدین نے قبضہ کیا ہے۔ علاقے کی اسٹرٹیجک معلومات اور جس طرح کارگل پر قبضہ کرنے والے مسلح ہیں یہ پاکستان کی حکومت اور آرمی کی شمولیت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ پاکستان نے چونکہ حالات کو بگاڑا ہے اس لئے حالات کو بہتر کرنے کی ذمّہ داری بھی پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ اگر پاکستان نے حالات کو بہتر بنانے میں اپنا کردار نہیں ادا کیا تو فرانس اعلانیہ پاکستان کو جارح قرار دے گا۔

واشنگٹن بھی پاکستان کو کوئی رعایت دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ واشنگٹن کارگل پر پاکستان کے اس موقف کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ پاکستان کارگل میں ملوث نہیں ہے، خاص طور پر اُس وقت جبکہ پاکستان آرمی نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ کارگل میں لڑنے والوں میں پاکستانی فوجی شامل ہیں۔ پاکستان نے وزارتِ خارجہ کے ذریعے امریکہ تک اپنا موقف پہنچانے کی کوشش کی لیکن امریکہ پاکستان کی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔

دریں اثنا ملک کے اندر آپریشن کوہ پیما کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے، جو سول ملٹری پالیسی میکرز کے درمیان تناؤ میں اضافہ اور اختلافات کی صورت میں عیاں تھے اور جو تینوں سروسز چیفس کے درمیان بھی تھے۔ سرتاج عزیز کے ہندوستان کے ناکام دورہ کے دو گھنٹے کے بعد دو اہم میٹنگز کال کی گئیں۔ جن میں سے ایک بارہ جون کو  جوائنٹ اسٹاف ہیڈ کوارٹر  میں آرمی چیف کی طرف سے تھی اور دوسری تیرہ جون کو وزیرِ اعظم نے گورنر ہاؤس لاہور میں بلائی تھی۔

جوائنٹ اسٹاف ہیڈ کوارٹر میں بلائی جانے والی میٹنگ، جو انتہائی شارٹ نوٹس پر بلائی گئی تھی، اس میں 25 سے 30 آرمی، ایئرفورس، اور نیوی کے افسران نے شرکت کی۔ اس میٹنگ میں آرمی چیف نے بھارت کی افواج کے دو میسیجز پکڑے جانے کے بارے میں بتایا جن میں جموں کے نزدیک اُدھم پور اور بھٹنڈا (جو بہاولنگر کے قریب ہے)  میں موجود فوجی ہیڈکواٹرز کو اپنی ساری قوت استعمال کرنے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ پاکستان کا اندازہ تھا کہ اُدھم پور کے ہوائی اڈے کا کارگل میں آپریشن کے لئے استعمال کیا جانا تھا جبکہ بھٹنڈا کا ہوائی اڈہ بین الاقوامی سرحد سے حملے کی صورت میں استعمال کیا جانا تھا۔ اجلاس میں صورتحال انتہائی کشیدہ تھی۔ مشرف نے پریشانی میں یہ فیصلہ کیا کہ ساری صورتحال کو وزیرِاعظم کے سامنے رکھا جائے جو اُس وقت لاہور میں تھے۔ اگلے دن لاہور جانے کا فیصلہ کیا گیا جس وقت وزیرِ خارجہ بھی واپس آچُکے ہوں گے۔ مُشرف نے وزیرِاعظم کو فون کیا اور اپنے لاہور آنے کے فیصلے سے مطلع کیا۔ اس دوران وزیرِ خارجہ واپس آگئے جن کو چک لالہ ایئر بیس سے سیدھا جوائنٹ اسٹاف ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا۔ سرتاج عزیز نے اپنے دورہ کے نتائج سے حاضرین کو مطلع کیا۔ اُن کی گفتگو کا لُبّ لباب یہ تھا کہ اُن کو نئی دہلی میں خوش آمدید نہیں کہا گیا۔ یہ میٹنگ اس نکتہ پر مرکوز رہ کر جاری رہی کہ کیا انڈیا بین الاقوامی سرحد پر جنگ شروع کر سکتا ہے۔

آخر میں آرمی چیف کی تجویز پر سیکریٹری دفاع نے آخری کلمات ادا کئے۔ سیکریٹری دفاع نے کہا کہ کیا موجودہ معاشی صورتحال میں پاکستان جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے اُنھوں نے ایک مشہور کہاوت دہرائی کہ افواج لڑائی لڑتی ہیں جبکہ جنگ قومیں لڑتی ہیں۔ کیا پاکستانی قوم جنگ کے لئے تیار ہیں۔ جو کہ اُس وقت نہیں تھی۔ آرمی چیف کا دعویٰ تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کی مالی مدد کے لئے  تیار تھے لیکن اُن کو یاد دلایا گیا کہ ایسا وہ امریکہ کی کلیئرنس کے بغیر نہیں کریں گے۔ یہ میٹنگ آدھی رات کو جا کر ختم ہوئی۔ اپنے جوابی حملے میں انڈیا اپنی عسکری، سفارتی، اور سیاسی طاقت کا مُظاہرہ کر رہا تھا۔ پاکستانی کیمپ میں ابتدا میں جو جوش و ولولہ تھا اُس کی جگہ پریشانی نے لے لی تھی۔ آرمی چیف البتہ پاکستانی قوم کے جنگ کے مورال کے بارے میں بہت پُر اُمید تھے اور ان کے مطابق پاکستانی قوم کو جنگ کے لئے تیار کرنے میں کوئی وقت درکار نہیں تھا۔ آرمی چیف نے بتایا کہ آرمی ہاؤس سے آتے وقت دو موٹر سائیکل سواروں نے اُنھیں دیکھا اور وکٹری کا اشارہ کیا۔ مشرف نے کہا کہ وہ وزیرِ اعظم کو کہیں گے کہ وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس بلائیں جس میں وہ وزیرِاعظم کو تقریر کے نکات لکھ کر دیں گے جو وہ ارکانِ پارلیمنٹ کو بتائیں جو آگے جا کر قوم کو بتائیں۔ اتنی سادہ انداز میں اتنی بڑی سطح پر فیصلہ سازی کی جا رہی تھی جو کہ باقاعدہ اداروں کے ذریعے کی جانی چاہئے تھی۔ اگر انتہائی اہم عہدوں پر موجود افراد اتنے سادہ انداز میں فیصلہ سازی کریں گے تو اُن میں سقم تو موجود ہوگا۔

13 جون کو گورنر ہاؤس لاہور میں انتہائی اہم نوعیت کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے تمام ارکان اور تینوں سروسز چیفس نے سیکریٹری دفاع کے ہمراہ شرکت کی۔ ایئر چیف، نیول چیف، اور سیکریٹری دفاع نے فیصلہ کیا کہ وزیرِاعظم کو ''مکمل سچ'' بتا دیا جائے۔ اُن کے خیال میں وزیرِاعظم کو ابھی بھی گمراہ کیا جا رہا تھا کہ پاکستان اچھا جا رہا ہے اور یہ کہ ہندوستان بین الاقوامی سرحد پر حملہ نہیں کرے گا۔ اُن کو اس بات کی بھی فکر تھی وزیرِاعظم کو صورتحال کا مکمل ادراک ہے بھی کہ نہیں اور یہ کہ کیا خطرات لاحق ہیں۔

وزیرِاعظم کی زیرِسربراہی ہونے والے اجلاس میں سرتاج عزیز نے شرکا کو اپنے دورہ ہندوستان کے بارے میں آگاہ کیا۔ اُس کے بعد کھلی بحث میں تینوں سروسز چیفس کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے۔ بحری اور فضائی چیفس نے آپریشن (کوہَ پیما) پر تنقید کی اور کہا کہ اس کی وجہ پاکستان کی مجموعی سیکیورٹی کمپرومائز ہو گئی ہے۔ نیول چیف کے مطابق بھارت کی جانب سے سمندری ناکہ بندی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا تھا اس رائے سے آرمی چیف نے اختلاف کیا۔ اسی طرح ایئر چیف نے فضائی طاقت کو آپریشن میں استعمال کرنے کی مخالفت کی۔ آرمی کو ناصرف ایئرفورس کی مدد اپنے اُن دستوں کے لئے بھی درکار تھی جو انڈیا کی بھاری آرٹلری کے نشانے پر تھے بلکہ اُن ہندوستانی دستوں کو نشانہ بنانے کے لئے بھی چاہیے تھی جو غیر محفوظ مُقامات پر پھنس گئے تھے۔ آرمی نے بھارت کے ساتھ مکمل جنگ کے امکان کو مسترد کر دیا تھا اور اُس کا موقف تھا کہ کارگل کی مختصر لڑائی میں شمولیت میں ایئر فورس کو نقصان نہیں ہوگا۔ ایئر چیف اس بات سے متفق نہیں تھے کہ ان کے مطابق ایسا کرنے کی صورت میں ایئر اسکواڈرن آزاد کشمیر میں لانے پڑیں گے جس کی وجہ سے کراچی اور لاہور غیر محفوظ ہو جائیں گے۔ پہلے ہی ایئر فورس نے اضافی ریڈار شمال میں لگائے تھے تاکہ بھارت کی فضائی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔ اجلاس میں آرمی کا زور اس بات پر تھا کہ اگر کوئی صورتحال بشمول جنگ کے جنم لیتی ہے تو آرمی اُس سے نمٹنے کے لئے تیار ہے۔ نیول چیف جو اس آپریشن کے ناقد تھے اُن کا سوال تھا کہ اس آپریشن کا مقصد کیا ہے اور پاکستان کس کے لئے لڑ رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ مکمل جنگ کے امکان کا بھی کئی شرکا نے اظہار کیا۔ کارگل آپریشن پر پیدا ہونے والے اختلافات اب کابینہ کی میٹنگز میں بھی سر اُٹھانے لگے تھے۔

آئی ایس آئی کے چیف جو نجی گفتگو میں آپریشن کے ناقد تھے نے کابینہ کی میٹنگز میں آرمی کا موقف اختیار کیا۔ اس پر سیکریٹری دفاع  افتخار احمد نے آپریشن کوہ پیما پر مخصوص سوالات اُٹھائے۔ کیبنٹ منسٹر گوہر ایوب خان نے کہا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آرمی اور سیکریٹری دفاع  کی رائے یکسر مختلف ہے۔ اُس میٹنگ میں چودھری نثار کا پوچھنا تھا کہ اس آپریشن کا آرڈر کس نے دیا۔ چودھری نثار کے مطابق پاکستان کارگل میں تباہی کی طرف گامزن تھا۔