16 دسمبر تک علی وزیر کو رہا نہ کیا گیا تو  ملک گیر احتجاج کریں گے؛ محمود خان اچکزئی

16 دسمبر تک علی وزیر کو رہا نہ کیا گیا تو  ملک گیر احتجاج کریں گے؛ محمود خان اچکزئی
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے اعلان کیا ہے کہ اگر رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو 16 دسمبر تک رہا نہ کیا گیا تو  پورے ملک میں احتجاج شروع کریں گے۔

برصغیر پاک و ہند اور پشتونخوا وطن کی آزادی کے قافلے کے عظیم سالار خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی شہادت کی 49 ویں برسی کے موقع پر ایوب سٹیڈیم کوئٹہ میں منعقدہ عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا کہ علی وزیر کے خاندان کا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے وزیرستان کے لوگوں کو اپنی زمین کا مالک سمجھ کر ان کے حقوق کی آواز اٹھائی اور اس جدوجہد میں درجن سے زیادہ لوگوں نے قربانیاں دی ہیں۔ جب راؤ انوار نے نقیب محسود کو جھوٹے پولیس مقابلے میں مارا تو محسود جرگے اور پھر پی ٹی ایم نے راؤ انوار کی گرفتاری اور اس پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا مگر 200 فیک انکاؤنٹرز کرنے والے اور ان انکاؤنٹرز میں 400 سے زائد بے گناہوں کو قتل کرنے والے راؤ انوار عدالت میں شاہانہ طریقے سے آتے تھے اور ان کو عدالت نے پانچ پولیس اہلکاروں کی جانب سے اعتراف جرم کرنے کے بعد بھی ضمانت دی جس کی ہم بھر پور مذمت کرتے ہیں۔ مگر علی وزیر کو دو سال ہو گئے پابند سلاسل رکھا گیا ہے۔

انہوں نے ساری دنیا میں موجود پشتونوں سے احتجاج کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ 16 دسمبر تک پارٹی کارکن بھرپور انداز میں تیاری کریں۔ اگر انہیں رہا نہیں کیا گیا تو ہم پشتونخوا وطن اور جہاں پر بھی پشتون آباد ہیں، وہاں علی وزیر کی رہائی کے لیے بھرپور احتجاج کریں گے۔

محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک پر خطرناک الزامات ہیں، دنیا کے ارادے سخت ہیں۔ پاکستان اقتصادی اور مالی طور پر پھنسا ہوا ہے۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز؛ سیاسی جماعتیں، عدلیہ، مقننہ، پریس، دانشور اور مسلح افواج کے نمائندوں پر مشتمل گول میز کانفرنس بلائی جائے۔ ایک نئے جمہوری پاکستان کی تشکیل ہو جس میں عوام کی منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو۔ اقوام کی منتخب سینیٹ کے وہی اختیارات ہوں جو پارلیمنٹ کے ہیں۔ پشتون اور دیگر اقوام کی زبانوں کو دفتری، تعلیمی اور کاروبار کی زبانوں کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ مادری زبان کی اہمیت سے انکار کرنا غلط روش ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر قوم پر ان کی اپنی زبان میں آسمانی کتابیں نازل ہوئیں۔ محمد عربیﷺ پر قرآن کریم ان کی مادری زبان میں نازل ہوا مگر یہاں قومی زبانوں سے انکار کیا گیا اور مادری زبان کے مطالبے پر ہمیں سخت سزائیں دی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی افغان ملت نے آزادی کو برقرار رکھ کر ریاست بنائی تو پیش آنے والے برے دن باہر سے نہیں بلکہ اندرون خانہ مشکلات کی وجہ سے آتے رہے، چاہے میر وائس نیکہ کی قندھار میں مضبوط ریاست تھی یا پھر احمد شاہ بابا کا موجودہ افغانستان، دونوں داخلی طور پر نا اتفاقی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ روسی اور امریکی ہمارے وطن میں آئے اور یہاں مداخلت کر کے جنگ چھیڑ دی۔ 50 سال ہوئے کہ دنیا کی ہر قوم نے افغانستان کی جنگ میں بلاواسطہ یا بلواسطہ طور پر حصہ لیا ماسوائے سکیموز کے۔ اب یہ دنیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان کو تاوان جنگ دے، خیرات نہیں۔ کیونکہ جرمنی کو پہلی جنگ عظیم میں ورسیلز (Versailles) معاہدہ کے تحت 13 سال تک تاوان جنگ دیتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو بچانے کی خاطر جو بھی آپ مجھے نام دیتے ہو میں وزیر خارجہ، داخلہ، پیر، ملا بھی بننے کے لیے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ یہاں ایران اور افغانستان میں سب اسلام کی سر بلندی چاہتے ہیں۔ پیغمبر اسلام سے پہلے عورتوں کے حقوق حیوانوں کے برابر تھے مگر پیغمبر اسلام نے عورتوں کو برابری دے کر انہیں جائیداد میں حق دیا اور ماں کے قدموں میں جنت کا پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے احادیث کی 6 کتابیں لکھیں اور یہاں تک کہ جنگ جمل کی کمانڈ کی۔ اب اگر طالبان اسلام کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق خواتین کو حقوق نہیں دیں گے تو ہم کیسے ترقی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کا بہترین دوست بن سکتا ہے۔ ایک افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے اور دوسرے افغانستان کو سٹریٹیجک ڈیپتھ سمجھنے کے خیالات اور پالیسی کی نفی کی جائے۔ دہشت گردی کسی بھی فرد، گروہ، فرقے، پارٹی یا ملک کی جانب سے ہو، قابل مذمت ہے مگر اس میں صرف افغانستان کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ القاعدہ، داعش، ٹی ٹی پی، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور یہاں لشکر طیبہ ملا کے یہ تمام 20 ہزار لوگ ان کے کارکن ہیں۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ پاکستان کو افغانستان کی آزادی، استقلال اور جھنڈے کو ماننا ہوگا اور طالبان کو پاکستان کی ارضی تمامیت کی گارنٹی دینی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو ہمارے خطے پر نظر رکھ کر عدم مداخلت کی فضا قائم کرنی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سے کہتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر افغانستان ٹوٹا تو پاکستان اور ایران بھی ٹوٹیں گے۔ اب بھی وقت ہے، اب بھی اقتصادی بدحالی سے نجات ممکن ہے۔ وسطی ایشیا میں بجلی، گیس، پٹرول کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ ان کو افغانستان اور پاکستان کے راستے سے نکال کر یہاں لانے سے خطے کی ترقی ممکن ہے اور اس طرح تمام ممالک کو اربوں ڈالر کا منافع ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ بالکل پاکستان میں رہتے ہوئے پشتون اسلام آباد سے اچھے تعلقات رکھیں گے مگر ان کی قومی وحدت جہاں خیبر پشتونخوا سمیت سابق فاٹا کے علاقوں، جنوبی پشتونخوا اور اٹک میانوالی کے علاقوں پر مشتمل تاریخی پشتونخوا وطن کا ایک یونٹ قائم کرکے انہیں برابری ان کے وسائل پر اختیار سے مشروط کرتا ہوں اور افغانستان میں مداخلت کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ پشتون ایک قوم ہیں جو ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب افغانستان اور پاکستان میں آباد ہیں۔ جب لاکھوں کی تعداد میں پشتون امریکہ، کینیڈا اور انگلینڈ میں رہ کر تمام حقوق کے مالک بن سکتے ہیں ماسوائے الیکشن کے حق کے تو میری تجویز ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے آر پار بسنے والے پشتونوں اور بلوچوں کو دوہری شہریت دی جائے۔ ہم ڈیورنڈ لائن کو نہیں چھیڑتے اور نہ چھیڑنا چاہتے ہیں مگر 1893 میں انگریزوں نے یہ لائن کھینچ کر دونوں جانب بنسے والے پشتونوں کو الگ کر دیا۔ 1970 تک ہم روزانہ ہزاروں کی تعداد میں دونوں طرف آزادی سے آتے جاتے تھے مگر آج 21 ویں صدی میں جب حیوانات اور جنگلی حیات کے راستے بھی بند نہیں کیے جاتے تو پشتونوں کے راستے بند کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن پر سات آؤٹ لیٹ ہیں، ہر جگہ کسٹم ہاؤسز بنائے جائیں اور ہمارا آنا جانا آزاد کیا جائے۔ منشیات اور اسلحہ کے علاوہ تمام اشیائے ضرورت اور کاروباری آئٹمز ہیں۔ ہمیں مجبور نہ کریں۔ اگر ہمارے اس آزاد آنے جانے پر پھر بھی پابندی رہی تو ہم عالمی عدالت انصاف میں جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم انسانوں سے زبان اور رنگ کی بنیاد پر فاصلے نہیں رکھنا چاہتے۔ بلوچ ماما اگر پشتون بلوچ قومی برابری پر خوش نہیں تو ہم واپس بگٹی، مری، جمالی اور نوشکی کے علاقوں کے علاوہ برٹش بلوچستان کا صوبہ بحال کریں گے اور اس کا نام ہم 'افغانیہ' تجویز کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سوال کی خاطر پارٹی تنظیمی ساخت کو منظم کرکے ملک اور صوبہ میں برابری، افغانستان میں امن قائم رکھنے کے لیے تگ و دو کو دوام دیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے بیانیے کے ساتھ ہمارا اتفاق ہے اور یہی ہمارا بیانیہ ہے اور اس پر عمل درآمد ضروری ہے۔

جلسے سے پارٹی کے مرکزی سیکرٹریز نواب ایاز خان جوگیزئی، عبدالرؤف لالا، صابرین خان چغرزئی، سندھ زون کے صوبائی صدر نذیر جان لالا، صوبائی ڈپٹی سیکرٹری سردار امجد ترین، ہائیکورٹ بار ایسی ایشن کے صدر مجید خان دومڑ، MPA میر کلام وزیر، خیبر پختونخوا کے آرگنائزر محمد علی اور موسیٰ شیر گڑھ نے بھی خطاب کیا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض نصیر ننگیال نے سرانجام دیے اور جلسے کی قراردادیں پارٹی کے صوبائی سیکرٹری مالیات سید شراف آغا نے پیش کیں۔

مقررین نے خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کے ان کی قومی، سیاسی، جمہوری، ادبی، صحافتی، پشتو  کی خدمات پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ خان شہید کے نظریات و افکار کو اپناتے ہوئے پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں جاری قومی، سیاسی، جمہوری جدوجہد اور قومی اہداف کے حصول کی منزل کے لیے مزید تگ و دو کرتے ہوئے جدوجہد کو دوام دیا جائے گا۔

جلسے کے آخر میں محمود خان اچکزئی نے روایتی نعرے لگائے یعنی نعرہ تکبیر اللہ اکبر، پشتونستان زندہ باد، پشتونخوا زندہ باد!

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔