صحافی اسد علی طور نے کہا ہے کہ پرویز الٰہی نے چیئرمین تحریک انصاف کو حکومت سے مذاکرات کا مشورہ دیا کہ جذبات سے کام نہ لیں صورتحال کا فائدہ اٹھائیں اور حکومت پر پریشر ڈالیں کہ ہمارےساتھ بیٹھ کر بات چیت کریں ورنہ ہم اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ گئے وفاقی حکومت گرانے تھے اور واپس آکر اپنی اسمبلیاں گرانے لگے۔
صحافی اسد علی طور نے یوٹیوب چینل پر اپنے وی-لاگ میں عمران خان اور پرویز الٰہی کی ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے حکومت کو پیشکش کی ہے کہ نئے انتخابات پر بیٹھک کر لیں ورنہ ہم اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ بالآخر وہ حکومت سے بات کرنے کو تیار ہوگئے ہیں۔ وزیراعلی پنجاب پرویزالٰہی پہلے تو عمران خان سے مشاورت کے لئے ہاتھ ہی نہیں آرہے تھے۔ جب ہاتھ آئے تو انہوں نے سمجھایا کہ آپ جذبات میں تقریر کر آئے ہیں۔ اس وقت میں آپ کے تمام پارٹی اراکین کو کھلے ترقیاتی فنڈز دے رہا ہوں۔ کوئی بھی ایم این اے ایسا نہیں جس کو فنڈز مختص نہ کئے ہوں۔ جس سے ان کے حلقے مضبوط ہوں گے۔
پرویزالٰہی نے عمران خان سے کہا کہ وفاقی حکومت نے پٹرول کی قیمتوں اور مہنگائی کا مسئلہ اٹھانا شروع کردیا ہے ان کے پاس خود کا دفاع کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے تو ہمارے پاس بہترین موقع ہے کہ ان پر تنقید ہونے دیں اور اہنے حلقے مضبوط کریں۔ اس کے بعد جب عام انتخابات ہوں گے تو ہم ن لیگ کو آرام سے گرا سکیں گے اور لڑائی یک طرفہ ہو گی۔ اس لئے اگر فوری اسمبلیاں تحلیل کی گئیں تو حلقے مضبوط کرنے والا کام ادھورا رہ جائے گا اور الیکشن میں دونوں اطراف سے کانٹے کی ٹکر ہو گی۔ پرویز الٰہی نے مشورہ دیا کہ آپ اس صورتحال کا فائدہ اٹھائیں اور حکومت پر پریشر ڈالیں کہ ہمارےساتھ بیٹھ کر بات چیت کریں ورنہ ہم اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ایسا نہ ہو کہ گئے وفاقی حکومت گرانے تھے اور واپس آکر اپنی اسمبلیاں گرانے لگ گئے ہیں ۔پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ حکومت کو ڈیڈ لائن دے دی ہے اور پرویزالٰہی نے تمام اختیار عمران خان کو دے دیا ہے۔
صحافی نے مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور وزیر اعلی پنجاب پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی کے گزشتہ روز کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مونس الٰہی نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ آپ تحریک عدم اعتماد میں تحریک انصاف کا ساتھ دیں۔ مونس الٰہی نے دعوی کیا کہ جنرل باجوہ جنہیں پی ٹی آئی کئی ماہ سے ‘غدار’، ‘میر جعفر’، ‘جانور’ اور نجانے کیا کچھ قرار دیتی آئی ہے، دراصل عمران خان کی پنجاب حکومت ان ہی کے مرہون منت تھی۔ مونس الٰہی نے کہا کہ میں پہلے دن سے تحریک انصاف کے ساتھ جانا چاہتا تھا۔ ہمیں دونوں طرف سے وزارت اعلی کی پیشکش آ چکی تھی۔ پی ڈی ایم کی طرف سے بھی آفر تھی اور پی ٹی آئی کی طرف سے بھی۔ تاہم جنرل باجوہ کے کہنے پر تحریک انصاف کے ساتھ گئے۔
اسد طور نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج اپریل 2022 تک سیاست میں مداخلت کرتی رہی۔ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا جس کے بعد وہ پنجاب میں حکومت واپس حاصل کرنےمیں بھی کامیاب ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلے کہیں اور سے ہو رہے تھے۔ ریٹائرڈ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی توسیع کے لئے ساری سیاست کررہے تھے۔ اور ان کا یہ کہنا کہ فوج سیاست سے باہر ہو گئی ہے یہ بات درست نہیں تھی۔
نئے آنے والے آرمی چیف کے اقدامات یہ ثابت کریں گے کہ فوج سیاست سے باہر ہوئی ہے یا نہیں۔ انکی بنائی ہوئی پالیسیاں بتائیں گی کہ فوج نے سیاست میں رہنا ہے یا نہیں۔
اسد علی طور نے نئے آرمی چیف عاصم منیر کی جانب سے جاری نئی ہدایات کے حوالے سے بتایا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے آئی ایس پی آر کو حکم دیا ہے کہ اب وہ نہ کوئی فلم بنائیں گے نہ ہی کوئی گانا بلکہ ان کا کام صرف تعلقات عامہ تک محدود رہے گا۔ صرف پیشہ ورانہ امور پرہی میڈیا سے معلومات شیئر کی جائیں گی۔ میجر جنرل احمد شریف اب ڈی جی آئی ایس پی آر کے فرائض انجام دیں گے۔ چونکہ وہ ایک خاموش طبع انسان ہیں تو امید کی جارہی ہیں کہ آئی ایس پی آر پہلے سے بھی زیادہ تحمل اور خاموشی کا مظاہرہ کرے گا۔ آرمی چیف نے "ففتھ جنریشن وار" کے شوشے کو بھی بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ پاکستانی فوج نے گزشتہ سات سے آٹھ سالوں میں سوشل میڈیا پر ففتھ جنریشن وار کے نام پر معاشرے میں سیاسی، لسانی اور مذہبی بنیاد پر اتنی تقسیم کی ہے کہ وہ بہت خوفناک صورتحال اختیار کر گئی ہے تاہم کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سب ریورس کرنے کے باوجود یہ منافرت ختم ہوسکے گی یا نہیں۔ اس کے لئے ہزاروں طلبہ کو آئی ایس پی آر میں انٹرنشپس کروائی گئیں۔ ان کو ٹریننگ دی گئی کہ آپ نے ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ یوٹیوبر، فیس بک اور ٹویٹر ہنڈلز والے لوگوں کو ہائر کیا گیا۔ ان سے سیاستدانوں، صحافیوں، سماجی کارکنوں کے خلاف ویڈیوز کروائی جاتی تھیں۔ نفرت انگیز بیانیہ پھیلایا جاتا تھا جو صرف اور صرف جھوٹ پر مبنی تھا۔ لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا گیا۔ ملک کی حفاظت کرنے والی فوج کو سیلوٹ پیش کرتے ہیں تاہم ان کے سیاست میں کردار کے ناقد اور مخالف ہیں۔ لاپتہ افراد والی پالیسی کے مخالف ہیں۔ جو ان پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں انہیں "غدار" کا سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ توہین مذہب کے الزامات لگائے جاتے رہے۔ معذرت کے ساتھ یہ ففتھ جنریشن وار بیرونی عناصر کی نہیں بلکہ فوج کی جانب سے ملک پر مسلط کی گئی تھی۔ یہ ریٹائرڈ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کا ویژن تھا۔ وہ خود تو پاپا جونز سمیت اربوں روپے بنا کرنکل گئے لیکن ان کے بعد آصف غفور آئے جو اس ویژن کو مزید بلندی پر لے گئے۔
صحافی اسد طور نے بتایا کہ نئے آرمی چیف کا فیصلہ بہت خوش آئند ہے اور اگر انہوں نے اس کو من و عن نافذ کروایا تو ملک میں تقسیم اور نفرت کم ہو گی۔ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ کا کلچر کم ہو گا۔ اگر ایسا ممکن ہوا تو اس کے بعد پاکستانی دوبارہ سے بحیثیت ایک قوم متحد ہونے لگیں گے۔ کیسے کیسے لوگوں کو آئی ایس پی آر کی چھتری تلے اکٹھا کیا گیا تھا۔ جب نفرت کا بیانیہ پھیلایا گیا تو اس کا ایک ردعمل آیا اور جب ہم جیسی آوازیں اٹھیں تو جواب میں زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اعتراف کر کے گئے ہیں کہ فروری 2021 تک فوج سیاست میں تھی اس کا مطلب ہماری تنقید ناجائز نہیں تھی۔ اب اگر فوج نے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا ہے تو ففتھ جنریشن وار کی ضرورت ہی نہیں ہو گی۔ جب فوج سیاست میں نہیں ہو گی تو ہم کیوں تنقید کریں گے۔ نہ ہمارے پاس تنقید کا کوئی جواز ہو گا نہ ہی ضرورت۔ ہماری سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔اپنی جان کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ ہمیں تواپنی فوج کے جوان بہت پیارے ہیں۔ جنرل عاصم منیر کی جانب سے بطور آرمی چیف ایک بہترین آغاز ہے اور اگر وہ اس پر کاربند رہے اور دیگر ادارے جو فوج کے ماتحت ہیں ان کو بھی اس دائرہ کار میں لے آئے تو 3 سال بعد جنرل عاصم منیر کی "لیگیسی" یاد رکھی جائے گی۔