سینئر صحافی رضا رومی نے کہا ہے کہ صرف سیاستدانوں کو لالی پاپ دئیے جا رہے ہیں۔ اس ملک میں تبدیلی کا کوئی سائن نہیں ہے۔ مجھے سیاسی دھماکا تو کیا تو کوئی پٹاخہ پھوٹتا نظر نہیں آ رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ رنگ برنگے لالی پاپ تیار ہیں، ان میں سے ایک بلاول کو جبکہ دوسرا شہباز شریف کو دیا گیا ہے۔ یہ پہلے مولانا فضل الرحمان کو دیا گیا تھا جو اندر سے کڑوا نکلا، اسی غصے میں انہوں نے پی ڈی ایم بنا لی۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملک کی سیاسی صورتحال اور تبدیلی کی قیاس آرائیوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بل پاس ہو رہے ہیں۔ حکومت بل آئوٹ پر بیل آئوٹ کئے جا رہی ہے۔ اپوزیشن ہی اصل میں عمران خان کی معاونت کر رہی ہے۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی جانب سے سٹیٹ بینک ترمیمی بل میں حکومت سے بھرپور تعاون کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان سے زیادہ تابعدار وزیراعظم کس کو ملے گا۔
اس پر مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ وہ اتنے بھی تابعدار نہیں ہیں، انھیں جب اکڑنے کا موقع ملتا ہے وہ ایسا کر گزرتے ہیں۔ وہ نواز شریف کو باہر بھیجنے سے انکاری تھے لیکن دبائو بڑھا تو پھر پیچھے ہٹ گئے۔ تاہم ملک کو درپیش مسائل ان کی تابعداری سے نہیں بلکہ ان کے نکمے پن اور بری حکمرانی سے ہے، کیونکہ نظام چل نہیں رہا۔
اس بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ عمران خان کا نکمہ پن بھی قابل ہو جاتا لیک اب صورتحال یہ ہے کہ کسی ایک کو جانا ہے۔ جب سیاست اس نہج کو پہنچ جائے تو جانے والا جاتے جاتے بڑا نقصان کر جاتا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے پلاٹوں کی بندر بانٹ بارے دیئے گئے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ انتہائی درست ہے کیونکہ پلاٹ کلچر ہمارے ملک کیلئے خوش آئند نہیں ہے۔ یہ کلچر پاک فوج آیا جو بعد میں سول بیوروکریسی، عدلیہ اور صحافت سمیت ہر جگہ پھیلا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلچر ہماری آرمڈ فورسز میں سے بھی ختم ہونا چاہیے۔ جسٹس اطہرمن اللہ کا یہ فیصلہ درست سمت میں ایک چھوٹا سا قدم ہے۔ بڑا پلاٹس کلچر جس سیکٹر میں موجود ہے وہاں ابھی اس کا اطلاق نہیں ہوا ہے۔
رضا رومی کا کہنا تھا کہ سرکاری زمینیں عوام کی پراپرٹی ہیں۔ پلاٹ نوازنے کا کلچر اس ملک سے ختم ہونا چاہیے۔ عوامی سرمائے کا استعمال بہت ہی جانچ پڑتال کے بعد ہونا چاہیے۔ ایسا کرنا بالکل نامناسب ہے۔
لیگی قائد کی واپسی بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ میاں جاوید لطیف نے بے پر کی نہیں اڑائی ہے۔ ملکی حالات جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، عین ممکن ہے کہ نواز شریف جلد ملک میں موجود ہوں۔ انہوں نے واپس آنا ہے تو ہی کچھ ہونا ہے۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ نواز شریف طبی بنیادوں پر پاکستان سے گئے تھے لیکن انھیں بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ سیاسی تھا۔ اس وقت مخصوص سیاسی حالات تھے جس میں سسٹم کی ضرورت یہ تھی کہ انھیں باہر بھیجا جائے۔ ان کی پاکستان میں موجودگی اور ممکنہ میڈیکل مسائل اگر بڑھ جاتے تو اس کے بڑے برے اثرات ہونے تھے۔ اس لئے ان کا جانا بھی سیاسی تھا اور ان کی واپسی بھی سیاسی ضرورتوں کے پیش نظر ہی ہوگی۔