Get Alerts

گاؤں موہری پور جہاں معاشرتی روایت نے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک رکھا ہے

مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے کا رواج 1946 سے شروع ہوا جب گاؤں کے کسی بااثر شخص نے خواتین کو انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے منع کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ اسے اخلاقی طور پر نامناسب سمجھتے تھے۔ تب سے موہری پور کی خواتین اس پابندی کی تعمیل کر رہی ہیں۔

گاؤں موہری پور جہاں معاشرتی روایت نے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک رکھا ہے

پدرسری معاشروں میں جب مرد کسی معاملے پر فیصلہ کرتا ہے تو اسے مقدس تصور قرار دیتا ہے جس کی تقلید کے سوا عورت کچھ نہیں کر سکتی۔ ایسی ہی ایک روایت پنجاب کے ضلع خانیوال کے گاؤں موہری پور میں اب بھی زندہ ہے جہاں کی خواتین تعلیم کے حصول کے ساتھ ملازمت، گھریلو کام اور کھیتی باڑی تو کرتی ہیں لیکن گاؤں کے بڑوں کی ہی ایک روایت ان خواتین کو حق رائے دہی سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ درحقیقت حکام، مقامی سربراہان اور خواتین کی اپنی بے حسی ہی اس مسئلے کو حل ہونے سے روکے ہوئے ہے۔

انتخابات میں خواتین کی شرکت کی حوصلہ افزائی کرنے والے قوانین بھی اس گاؤں کی خواتین کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے میں سود مند ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق کسی حلقے میں خواتین کے کل ووٹ 10 فیصد سے کم کاسٹ ہونے پر پولنگ کالعدم قرار دے دی جائے گی۔ اس کے باوجود الیکشن کمیشن موہری پور میں خواتین کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کے باوجود قومی یا صوبائی اسمبلی کے حلقے میں پولنگ کو درست قرار دیتا ہے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ جس انتخاب میں خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے سے حتمی نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کے نتائج قابل قبول ہیں۔ تاہم ہارنے والے امیدواران کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر جیتنے کا مارجن کم ہے تو خواتین کے ووٹ فیصلہ کن ہو سکتے ہیں۔

موہری پور تحصیل کبیروالہ، ضلع خانیوال کا ایک قدیم گاؤں ہے جو شہر کبیر والا سے 15 کلومیٹر دور شمال میں واقع ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق 9014 نفوس پر مشتمل اس گاؤں میں 4,835 رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ سرکاری طور پر خواتین ووٹرز کی تعداد 2002 میں 1,883 تھی جو اب تک یہیں رکی ہوئی ہے جب نادرا کی جانب سے قومی شناختی کارڈ کے ساتھ سبھی افراد کی ووٹر رجسٹریشن بھی ہو جاتی تھی۔

اسی روایت کی تقلید میں موہری پور سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار ہار کو ترجیح دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2002 کے بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل کے سابق چیئرمین و ایڈووکیٹ غلام مصطفیٰ اولکھ اپنی یونین کونسل سے 150 ووٹوں سے ہار گئے۔ اگر اس کے علاقے کی خواتین ووٹ ڈالتیں تو وہ جیت سکتے تھے۔ انہوں نے اس روایت کو برقرار رکھا جس پر موہری پور کے لوگ فخر کرتے ہیں۔

مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے کا رواج 1946 سے شروع ہوا جب گاؤں کے کسی بااثر شخص نے خواتین کو انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے منع کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ اسے اخلاقی طور پر نامناسب سمجھتے تھے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بعض نے یہاں تک دلیل دی کہ اسمبلی کے ارکان کا انتخاب مردوں کا کام ہے۔ تب سے موہری پور کی خواتین اس پابندی کی تعمیل کر رہی ہیں۔
موہری پور کے مردوں کو تب شدید جھٹکا لگا جب گاؤں کی ایک خاتون اپنے اس حق کے لیے ڈٹ گئی اور پہلی دفعہ گاؤں میں کسی خاتون نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ اس خاتون کا نام فوزیہ قیصر ہے جنہوں نے اکتوبر 2015 میں لاہور ہائیکورٹ کے ملتان بنچ سے اپنے اور دیگر خواتین کے لیے پٹیشن کے ذریعے سکیورٹی کے سخت انتظامات یقینی کروائے اور پھر الیکشن کے دن اپنا ووٹ بھی کاسٹ کیا۔ لیکن 2018 کے قومی انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 146 (سابقہ نمبر 150) میں اس یونین کونسل کے چاروں پولنگ بوتھ پر خواتین کا ایک بھی ووٹ کاسٹ نہیں ہوا (دیکھیے صفحہ نمبر 70 تا 73)۔

36 سالہ فوزیہ قیصر کو اپنے شوہر قیصر عباس اور مقامی میڈیا کی حمایت حاصل تھی اور ان کے خاوند نے انہیں یہ اعتماد دیا کہ وہ اپنا جمہوری حق استعمال کریں۔

موہری پور کی نمبرداری پاکستان کے قیام سے تاحال اولکھ کمبوہ برادری کے پاس ہے۔ موجودہ نمبردار چودھری محمد عارف اولکھ حالیہ دنوں میں ہی فوت ہوئے ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے محمد افضل اولکھ کو یہ تو نہیں معلوم کہ ان کے بزرگوں نے خواتین سے ووٹ نہ ڈلوانے کا فیصلہ پہلی دفعہ کب کیا تھا لیکن وہ اتنا جانتے ہیں کہ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک ان کے جتنے بھی بزرگ رہے سبھی نے خواتین کے ووٹ ڈالنے کی مخالفت کی۔

موہری پور کے 88 سالہ ریٹائرڈ اسٹیشن ماسٹر ملک خادم حسین بتاتے ہیں کہ بزرگوں نے جانے کن حالات میں یہ فیصلہ کیا تھا لیکن ان کے گزر جانے کے بعد آج بھی موہری پور کے لوگ اس روایت کا احترام کرتے ہیں۔

1947 میں برصغیر کی آزادی کے بعد گاؤں کے سماجی ماحول میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ گاؤں میں تعلیم کی سہولیات ملنے سے شرح خواندگی بھی 62 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ خواتین ملازمت پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ گھریلو و زرعی معاملات کو بھی دیکھتی ہیں۔ موہری پور کی خواتین کی نئی نسل اپنے حقوق سے آگاہ ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو ووٹ ڈال سکتی ہیں۔ اس کے باوجود یہاں کی خواتین بڑوں کی بنائی ہوئی روایات کا احترام کرتی ہیں۔

فوزیہ قیصر کو یقین ہے کہ ان کا ووٹ اگلے انتخابات میں دیگر خواتین کی ہمت کی علامت ہوگا۔ وہ کہتی ہیں؛ 'خواتین ہمارے معاشرے کا 52 فیصد حصہ ہیں اور لوگوں نے اس اکثریت کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔ ان ہتھکنڈوں میں سے ایک یہ ہے کہ خواتین کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے'۔

انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں ناکافی حفاظتی انتظامات کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج تک کسی نے انہیں براہ راست یا بلاواسطہ ڈرانے کی کوشش نہیں کی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک بااثر خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔

الیکشن ایکٹ 2017 کا سیکشن 9 باب 2 کہتا ہے کہ کسی بھی حلقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مجموعی ووٹوں میں سے کم از کم 10 فیصد ووٹ کاسٹ ہونا ضروری ہیں بصورت دیگر خواتین کو ووٹنگ سے روکنے کے خدشے کے تحت الیکشن کمیشن تحقیقات کرے گا اور صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے مخصوص پولنگ اسٹیشنز یا مکمل حلقے میں نتیجہ یا مکمل الیکشن کو کالعدم قرار دے سکتا ہے اور دوبارہ الیکشن منعقد کرواسکتا ہے۔ تاہم 2015 کے بلدیاتی انتخابات اور 2018 کے قومی انتخابات میں مقامی پولنگ اسٹیشنز پر خواتین کے ووٹ کاسٹ نہ ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن نے غور کیے بغیر نتائج کو قبول کر لیا تھا۔

اسی حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل شاہد اقبال کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں بیش تر حلقوں میں ووٹوں کی شرح کو دیکھا جائے تو وہ کسی مخصوص پولنگ بوتھ میں خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے سے متاثر نہیں ہوتے ہیں اور مذکورہ پولنگ سٹیشن کے متعلقہ صوبائی حلقے پی پی 203 و قومی اسمبلی کے این اے 150 کے کامیاب امیدوار اپنے مقابل سے بہت آگے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ و الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کی موہری پور کمیونٹی کے رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی میٹنگز میں انہیں خواتین کو زبردستی ووٹ ڈالنے سے روکنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جبکہ الیکشن کمیشن جمہوری عمل میں خواتین کی مساوی شمولیت کے مسئلے پر مسلسل توجہ دے رہا ہے۔
سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب و الیکشن قوانین کے ماہر راؤ اکرم خرم کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن مذکورہ شق کو کچھ اس طرح سے بیان کرتا ہے کہ کوئی بھی امیدوار الیکشن ہارنے کے بعد مذکورہ شق کی بنیاد پر انتخابات کے نتائج کو 'مادی طور پر متاثر ہونے' کے خدشے کے تحت چیلنج کر سکتا ہے۔ اس صورت حال میں ہارنے اور جیتنے والے کے ووٹوں میں فرق کو خواتین کے ان ووٹوں کی تعداد سے موازنہ کیا جاتا ہے جو اگر کاسٹ ہو جاتے تو ہارنے والے امیدوار کے جیتنے کی امید ہو تو اس صورت حال میں انتخابات کسی ایک یا زائد پولنگ سٹیشنوں پر ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ہونا یہ چاہئیے تھا کہ خواتین کے جس پولنگ سٹیشن پر 10 فیصد سے کم ووٹ کاسٹ ہوئے ہوں وہاں ہر صورت دوبارہ سے انتخابات کروائے جائیں۔

اسی طرح لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2022 میں تحصیل و ویلج کونسل کے چیئرمین کے امیدوار پینل جس تناسب سے ووٹ حاصل کریں گے اسی تناسب سے انہیں جنرل نشستیں الاٹ ہوں گی۔ اس طرح موہری پور میں خواتین کے ووٹ نہ ڈالنے کی وجہ سے ان کے سیاسی نمائندگان کو ویلج اور تحصیل کونسل میں قلیل نمائندگی ملنے کے خدشات واضح ہیں۔

فوزیہ قیصر کا کہنا ہے کہ جب تک ضلعی انتظامیہ اور مقامی منتخب نمائندے خواتین کو ووٹ ڈالنے کے قابل بنانے میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گے، موہری پور کی خواتین اپنے حقوق سے محروم رہیں گی۔ ان کا ماننا ہے کہ پنجاب حکومت کو اس صورت حال کو سدھارنے کا کام اراکین صوبائی اسمبلی کو سونپنا چاہئیے کیونکہ یہ مسئلہ اراکین قومی اسمبلی کے لیے اہم نہیں ہے۔

فریدہ شہید عالمی شہرت یافتہ ماہر عمرانیات اور خواتین کے حقوق کو فروغ دینے والی تنظیم 'شرکت گاہ' کی بانی رکن ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ووٹ ڈالنا ایک فرد کی آزادی اظہار کی ایک شکل ہے اور اس پر کوئی اور پابندی نہیں لگا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اگرچہ موہری پور کی خواتین اس روایت کی پیروی کر رہی ہیں لیکن وہ ایسا خوشی سے نہیں کر رہی ہیں'۔ ان کا ماننا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں خواتین کے ووٹ کی 10 فیصد شرح کا اطلاق صرف حلقے پر نہیں ہونا چاہئیے بلکہ ہر حلقے کے ہر پولنگ سٹیشن پر بھی ہونا چاہئیے۔ ایکٹ میں مجوزہ ترمیم لانے میں خواتین پارلیمنٹیرینز کا کوئی اہم کردار ادا کرنے کا امکان نہیں ہے۔ جبکہ سماجی ادارے الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے آمادہ کررہے ہیں کیونکہ یہ مسئلہ عمومی طور پر چھوٹے چھوٹے علاقوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

سماجی کارکن اور خانیوال ضلع کونسل کی سابق رکن بسم اللہ ارم نے خواتین کے حق رائے دہی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے موہری پور میں تین میٹنگز کا انعقاد کیا تھا۔ ان نشستوں میں یہ بات سامنے آئی کہ مقامی خواتین ووٹ ڈالنے پر آمادہ ہیں لیکن انہیں نامعلوم خوف کا سامنا ہے کیونکہ یہاں کسی خاتون نے کبھی ووٹ ڈالا ہی نہیں۔

ہری پور میں خواتین کے حق رائے دہی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنے والی بہت سی کوششیں ناکام ہوئیں۔ 2005 میں ضلعی رابطہ کمیٹی نے ایک مہم چلائی لیکن یہ فضول مشق ثابت ہوئی۔ ایک اور کوشش میں 2013 کے عام انتخابات سے پہلے انسانی حقوق کے معروف کارکنان جیسے عاصمہ جہانگیر، حنا جیلانی، فرزانہ باری، سرور باری اور راشد رحمان نے موہری پور کا دورہ کیا تاکہ مقامی مردوں کو خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے پر راضی کیا جا سکے۔ لیکن اس کے باوجود الیکشن کے دن 30 مئی کو کوئی بھی خاتون پولنگ سٹیشنوں پر نہیں آئی۔

فوزیہ قیصر کے شوہر قیصر عباس صابر پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں جبکہ وہ مصنف اور شاعر بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد اس فیصلے میں ملوث رہے ہوں لیکن اب یہ صرف مقامی سرکردہ لوگوں کی ضد ہے جو خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں؛ 'اس فیصلے کے پیچھے محرکات کو ظاہر کرنے کے لئے کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے'۔

موہری پور کے پہلے ووٹ کی پس پردہ کہانی وہ کچھ اس طرح سناتے ہیں کہ ان کی کتاب 'جمہوریت محاصرے میں' کی اسلام آباد پریس کلب میں تقریب رونمائی تھی۔ اس موقع پر ایک صحافی نے یہ اظہار خیال کیا کہ جمہوریت کے لئے فکرمند مصنف کے اپنے آبائی علاقے میں خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس بات نے انہیں ایک تحریک دی کہ وہ اپنی بیوی کو مکمل سپورٹ کریں گے کہ وہ اپنا ووٹ کاسٹ کرے۔

گاؤں واپس آ کر انہوں نے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کچھ میٹنگز منعقد کیں جن کا مقصد مقامی رہنماؤں کو خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کے لیے راضی کرنا تھا۔ ان ملاقاتوں میں گاؤں والوں نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی خواتین کو ووٹ ڈالنے کے لیے آمادہ کریں گے لیکن نتیجہ ایک مرتبہ پھر اس کے برعکس ہی نکلا۔ خواتین میں سے کسی نے بھی ووٹ نہیں ڈالا۔

قیصر عباس نے ضلعی انتظامیہ، سماجی اداروں اور سیاسی نمائندوں سے شکوہ کیا کہ وہ اپنا کردار اس طرح ادا نہیں کر رہے جس طرح انہیں کرنا چاہئیے تھا۔

ضلعی انتظامیہ نے ہائی کورٹ کی ہدایات پر کمیونٹی کے ساتھ چند میٹنگز کیں اور روایتی نتائج پر اکتفا کرلیا۔ انتظامیہ کے مطابق مرد خواتین پر کوئی پابندی نہیں لگاتے لیکن خواتین خود جمہوری عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتیں۔ ناکامیوں کے باوجود سول سوسائٹی کے گروہوں کو ووٹنگ کی اہمیت اور زیادہ سے زیادہ سیاسی نمائندگی کی ضرورت پر زور دینے کے لیے براہ راست خواتین سے رجوع کرنے کی اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ اسی طرح سماجی اداروں کو نتائج کی فکر کئے بغیر براہ راست مقامی خواتین کو ووٹ کی افادیت کے لئے آگاہی دینی چاہئیے لیکن سماجی تنظیموں کی عدم دلچپسی کی وجہ سے یہ مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔

سابق رکن قومی اسمبلی رضا حیات ہراج کا کہنا ہے کہ علاقائی روایت کے مطابق مرد چونکہ مردوں سے ہی بات کرتے ہیں تو انہوں نے براہ راست مقامی رہنماؤں سے بات کی اور انہیں قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں خواتین تک براہ راست رسائی نہیں ہے، اس لیے وہ اس بات سے واقف نہیں تھے کہ خواتین اپنا ووٹ کیوں نہیں ڈال رہی ہیں۔ 2002 سے 2013 تک لگاتار منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی رضا حیات ہراج موہری پور کے معاملے میں کئی ناکام کوششوں کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ مقامی لیڈروں پر منحصر ہے کہ وہ خواتین کو کب ووٹ ڈالنے کی اجازت دیں گے۔ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مقامی ترجمان نے اس حوالے سے کوئی ردعمل نہیں دیا۔

فوزیہ قیصر کا مؤقف ہے کہ یہ ضلعی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ جس پولنگ سٹیشن پر خواتین کے ووٹ مقررہ حد سے کم کاسٹ ہوں ان پولنگ سٹیشنوں کے نتائج جاری نہ کئے جائیں، چاہے وہ بلدیاتی انتخابات ہوں یا عام انتخابات۔ 'ایسا اقدام نہ صرف انتخابات میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنائے گا بلکہ جمہوری عمل کو بھی تقویت دے گا۔ اس سے گاؤں کو ترقیاتی منصوبوں اور سرکاری سہولیات کی شکل میں مزید فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ بصورت دیگر وہ موہری پور کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے والی پہلی اور شاید آخری خاتون ہوں گی'۔

یہ روایت نہ صرف رائے عامہ اور جمہوری عمل کو مسخ کرتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بین الاقوامی کنونشنز کی بھی خلاف ورزی کی مرتکب قرار پاتی ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کا آرٹیکل 21 عالمی اور مساوی حق رائے دہی کے ذریعے حکومت کا حصہ بننے کے لوگوں کے حق کی نشاندہی کرتا ہے۔ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنونشن کا آرٹیکل 7 خواتین کے ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ لیکن موہری پور کی خواتین کے لیے اس طرح کے کنونشنز فائدہ مند نہیں ہیں کیونکہ ان خواتین کی حالت زار قومی اور بین الاقوامی سطح پر جمہوریت کو فروغ دینے والوں قوانین سے فائدہ اٹھانے سے تاحال محروم ہے۔


نوٹ: الیکشن رپورٹنگ پر یہ سٹوری ایشیئن میڈیا فیلوشپ (اینفرل) کے تحت تیار کی گئی ہے۔

فیصل سلیم میڈیا سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور مختلف نیوز ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سماجی مسائل اور دلچسپ حقائق شامل ہیں۔