ضلع باجوڑ تحصیل نواگئی سے تعلق رکھنے والی یسرا گل نے حال ہی میں میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا۔ وہ کافی پر امید تھیں کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد علاقے کی خدمت کریں گی لیکن پوری سب ڈویژن نواگئی میں لڑکیوں کا کالج نہ ہونے کی وجہ سے انہیں تعلیمی سلسلے کو خیرباد کہنا پڑا۔
یسرا گل کے والد فیروز خان کا کہنا ہے کہ ان کی ایک اور بیٹی ثنا گل نے بھی حال ہی میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ہے۔ فیروز کہتے ہیں کہ انہوں ںے اپنی بیٹیوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے نواگئی سے تقریباً 25 کلومیٹر دور ہیڈکوارٹر خار میں ضلع کے واحد گرلز ڈگری کالج میں بھی داخلہ لینے کی بہت کوشش کی لیکن وہاں پر محدود سیٹوں کی وجہ سے ان کی بیٹیوں کو داخلہ نہ مل سکا۔
یسرا گل کے والد فیروز نے مزید بتایا کہ میں نے ثنا گل اور یسرا گل کے خار گرلز کالج میں داخلے کے لیے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کی بھی منت سماجت کی لیکن مایوسی کے سوا کچھ نہ مل سکا۔
یہ کہانی صرف یسرا اور ثنا گل کی نہیں ہے بلکہ اسی طرح حال ہی میں تحصیل نواگئی کے واحد گرلز ہائی سکول سے فارغ ہونے والی 95 طالبات بھی مزید تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو گئی ہیں۔
محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق نواگئی سب ڈویژن کی آبادی ضلع باجوڑ کی کل آبادی کا لگ بھگ 47 فیصد ہے مگر اس پوری سب ڈویژن میں لڑکیوں کے لئے کوئی ہائیر سیکنڈری سکول یا کالج نہیں ہے۔ اس سب ڈویژن میں لڑکیوں کے لیے صرف 4 ہائی سکول ہیں جن میں زیر تعلیم بچیوں کی تعداد 766 ہے۔ ان 766 بچیوں کو میٹرک کے بعد تعلیم جاری رکھنے کے لئے کوئی کالج یا ہائیر سیکنڈری سکول میسر نہیں ہے۔
ڈان اخبار سے وابستہ باجوڑ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی انوار اللہ خان کا خیال ہے کہ ان علاقوں میں تعلیمی سہولیات کے فقدان میں قصور وار علاقائی مشران اور سیاسی عمائدین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن مہم کے دوران جب امیدوار ان علاقوں میں جاتے ہیں تو زیادہ تر لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کون ان کے علاقے کے مسائل پر کام کر سکتا ہے بلکہ صرف دوستی، تعلق اور ذاتی فائدے کو دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کے بعد ان علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں ہوتے۔
انوار کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی عمائدین بھی ان علاقوں کے مسائل سے بخوبی واقف ہوتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ یہ مسائل بھول جاتے ہیں اور ان کی ترجیحات یکسر مختلف ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس پوری سب ڈویژن میں ابھی تک کالج یا ہائیرسیکنڈری سکول نہیں بن سکا۔
باجوڑ سب ڈویژن نواگئی میں لڑکیوں کے لئے ہائیر سکینڈری سکول اور کالج نہ ہونے کے حوالے سے جب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر مہر النساء سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ یہ مسئلہ درپیش ہے جس کا ہمیں بھی بہت احساس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گو کہ پورے باجوڑ میں صرف ایک ہی کالج ہے تاہم کوشش کر رہے ہیں کہ مذکورہ ڈویژن میں ہنگامی بنیادوں پر ہائی سکولوں میں سیکنڈ شفٹ کے طور پر سیکنڈری لیول کی کلاسز شروع کی جائیں تاکہ امسال میٹرک کا امتحان پاس کرنے والی زیادہ سے زیادہ طالبات کو مزید تعلیم جاری رکھنے کا موقع مل سکے۔
محکمہ تعلیم باجوڑ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک ہی تحصیل نواگئی میں پرائمری لیول پر 19 سکولوں میں 3277 بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ اس تحصیل میں لڑکیوں کے لئے صرف 3 مڈل سکول ہیں اور ان میں زیر تعلیم بچیوں کی تعداد 112 ہے جبکہ واحد ہائی سکول میں لڑکیوں کی تعداد 95 تک رہ گئی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہائی لیول پر علاقے میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے باعث بچیاں تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
ضلع باجوڑ میں 51 منظور شدہ سکولوں پر کام روک دیا گیا ہے جن میں لڑکیوں کے 21 سکولز بھی شامل ہیں۔
محکمہ تعلیم باجوڑ سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق باجوڑ میں پاکستان تحریک انصاف کے سابقہ دور حکومت میں ضم اضلاع اور خصوصاً ضلع باجوڑ میں نئے سکولوں کے قیام کے علاوہ پرائمری، مڈل اور ہائی سکولوں کی اپ گریڈیشن کی بھی منظوری دی گئی تھی جس میں 100 نئے پرائمری سکولز کا قیام بھی شامل تھا۔ اس میں ضلع باجوڑ کے حصے میں 12 نئے پرائمری سکولز آئے تھے جن میں لڑکیوں کے سب سے زیادہ 10 سکول اور لڑکوں کے 2 سکول شامل ہیں لیکن فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس منصوبے پر ابھی تک کام رکا ہوا ہے۔
اس کے ساتھ باجوڑ میں 6 پرائمری ٹو مڈل سکول اپ گریڈ کرنے تھے جن میں لڑکیوں کا ایک اور لڑکوں کے 5 سکول شامل تھے۔ مڈل ٹو ہائی 16 سکولز کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ بھی شروع کیا گیا تھا جس میں لڑکیوں کے 5 اور لڑکوں کے 11 سکولز شامل تھے۔ اسی طرح ہائی سکول ٹو ہائیر سیکنڈری سکولز کی اپ گریڈیشن میں 17 سکول شامل تھے جن میں لڑکیوں کے 5 اور لڑکوں کے 12 سکولز شامل ہیں۔ تاہم فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ان منصوبوں پر کام رکا ہوا ہے۔
ان معلومات کے مطابق اس وقت باجوڑ میں 51 سکولز پر کام روک دیا گیا ہے جن میں 21 سکولز لڑکیوں اور 30 لڑکوں کے شامل ہے۔
ضلع کے مختلف مسائل کی نشاندہی کے لئے قائم تھنک ٹینک و کنسلٹنسی فرم 'دی تھنکرز ایسوسی ایشن باجوڑ' نے اس مسئلے پر حال ہی میں ایک سٹیٹ شیٹ جاری کی ہے جس کے مطابق مردوں کے 6 تعلیمی اداروں کے مقابلے میں خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کا صرف ایک ادارہ موجود ہے۔ رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ پورے ضلع باجوڑ میں مردوں کی 650,798 آبادی کے لئے اعلیٰ تعلیم کے 6 ادارے قائم ہیں جبکہ خواتین کی 637,147 آبادی کے لئے صرف ایک ادارہ ہے۔
ضلع باجوڑ میں خواتین کیلئے اعلیٰ تعلیم کے مواقع سے متعلق دی تھنکرز ایسوسی ایشن باجوڑ کے چیئرمین شاہد علی کا کہنا ہے کہ آبادی کے تناسب سے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے تعلیمی ادارے بہت کم ہیں۔ باجوڑ میں لڑکیوں کے لئے صرف ایک ڈگری کالج ہے جس میں بی ایس کے صرف 2 مضامین پڑھائے جاتے ہیں جبکہ انٹرمیڈیٹ تعلیم (ایف ایس سی) کے لئے صرف 500 نشستیں ہیں جو ناکافی ہیں۔
شاہد علی کا مزید کہنا تھا کہ ہر سال سینکڑوں بچیاں میٹرک پاس کر کے ہائیر سیکنڈری سکولز اور کالجز نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران امیدوار عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں لیکن جب الیکشن ہو جاتے ہیں تو پھر وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔ شاہد علی کے مطابق ضلع باجوڑ سے 4 ایم پی ایز اور ایک ایم این اے ہونے کے باوجود تعلیم کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ ان امیدواروں کو الیکشن کے دن اور الیکشن مہم کے دوران تعلیم یافتہ خواتین کی کمی کا احساس ہو جاتا ہے لیکن الیکشن میں کامیابی کے بعد اس مسئلے پر بات تک نہیں کرتے۔
اس حوالے سے سابق صوبائی وزیر اور موجودہ ممبر صوبائی اسمبلی انور زیب خان نے بتایا کہ ہم نے سابقہ دور میں 51 سکولوں کی منظوری دی تھی لیکن بدقسمتی سے نگران حکومت نے ان منصوبوں پر فنڈز نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کام روک دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بہت جلد ان منصوبوں کو دوبارہ شروع کریں گے اور پہلی ترجیح میں ان 51 سکولوں کی تعمیر مکمل کریں گے۔ اس کے بعد مزید سکولوں کی تعمیر کا بھی آغاز کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم کا فروغ ہماری ترجیحات میں شامل ہے اور ہم نے سیکنڈری لیول پر ایمرجنسی بنیادوں پر کئی سکولوں کو ڈبل شفٹ پر منتقل کیا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے سابقہ دور میں 2 بوائز ڈگری کالجز اور 2 گرلز ڈگری کالجز کی بھی منظوری دی تھی جن پر بہت جلد دوبارہ کام شروع کیا جائے گا۔