پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے پارٹی چھوڑ کر جانے والے رہنماؤں کے بارے میں فیصلہ کیا ہے کہ ان کے لیے اگر کوئی کہے گا تب بھی ان کو ٹکٹ جاری کریں گے اور نہ ہی ان کی پارٹی میں واپسی کا کوئی رستہ بچا ہے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی جاوید چوہدری کا۔
یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں جاوید چوہدری نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات کے لیے مختلف حلقوں میں امیدواروں کو ٹکٹیں جاری کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ ایسے میں عمران خان کی جانب سے پارٹی چھوڑ کر جانے والے رہنماؤں کے حوالے سے بھی فیصلہ سامنے آ گیا ہے۔ عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ جو لوگ پارٹی چھوڑ کر گئے ہیں اور جنہوں نے پریس کانفرنسیں کی ہیں ان لوگوں کو ٹکٹ نہیں ملے گا اور نہ ہی انہیں پی ٹی آئی میں واپسی کا موقع ملے گا بلکہ وہ کبھی پارٹی کے قریب بھی نہیں پھٹکنے چاہئیں۔ عمران خان نے ان افراد کے لیے اپنے دروازے مکمل طور پر بند کر دیے ہیں۔
صحافی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ہدایات کے بعد کل عمران خان اور پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین گوہر خان کی اڈیالہ جیل میں پہلی بار تنہائی میں ملاقات ہوئی جس میں دونوں سابق چیئرمین حضرات کے مابین ٹکٹیں جاری کرنے کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ گوہر خان نے عمران خان کے سامنے فہرست رکھی تو اس میں موجود کچھ لوگوں کے بارے میں عمران خان نے قطعی اور حتمی طور پر کہا کہ کچھ بھی ہو جائے، ان لوگوں کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ یہ آج یا کل یا کبھی بھی درخواست دیں، الیکشن کے بعد درخواست دیں، پارٹی میں دوبارہ شمولیت کے لیے درخواست دیں لیکن ان کے لیے ہمارے دروازے مکمل طور پر بند ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پارٹی چھوڑتے ہوئے پریس کانفرنسیں کیں اور عمران خان کے خلاف ایسے کلمات کہے جنہیں عمران خان اپنے دل سے نہیں نکال سکتے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ میں شاید مرتے دم تک ان الفاظ کو اپنے دل و دماغ سے نہیں مٹا سکوں گا۔
ممنوعہ افراد والی فہرست میں سب سے پہلے اسد عمر کا نام ہے۔ عمران خان نہیں چاہتے تھے کہ اسد عمر کو وزارت خزانہ سے فارغ کیا جائے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے حکم آنے کے بعد انہوں نے اسد عمر کو سائیڈ پر کر دیا۔ بعدازاں بری کارکردگی کے باوجود بھی عمران خان ان کو چلاتے رہے لیکن جونہی عمران خان پر برا وقت آیا تو انہوں نے ناصرف پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا بلکہ سیاست چھوڑنے کا اعلان بھی کر دیا۔ لہٰذا انہیں کبھی پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔
فواد چوہدری عمران خان کے قریبی ہیں اور اس وقت توہین الیکشن کمیشن کیس کی انکوائری کا دونوں ایک ساتھ سامنا کر رہے ہیں۔ فہرست میں ان کا نام دیکھ کر عمران خان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کو ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ ان کی طرف سے کہے گئے کسی شخص کو بھی ٹکٹ نہیں دیا جائے گا اور اس حلقے میں ہمارا اپنا امیدوار الیکشن لڑے گا۔
ملیکہ بخاری کا نام بھی اس فہرست میں ہے جن پر عمران خان نے کراس لگا دیا ہے۔ ملیکہ بخاری پی ٹی آئی کے ترجمانوں میں شامل تھیں اور مختلف ٹی وی پروگراموں میں پارٹی کی ترجمانی کرتی تھیں۔ محمود مولوی کو عمران خان کے ایک دوست کی سفارش پر ٹکٹ دیا گیا تھا۔ مگر وہ بہت جلد پارٹی سے منحرف ہو گئے تھے۔ ان کو بھی ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔
علی زیدی عمران خان کے اس وقت کے ساتھی ہیں جب وہ کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے عمران خان امریکہ میں قیام کے دوران علی زیدی کے فلیٹ میں ٹھہرا کرتے تھے۔ علی زیدی شوکت خانم اسپتال کے لیے چندہ بھی جمع کیا کرتے تھے۔ ان پر بھی کراس لگایا گیا ہے۔ اسی طرح عمران اسماعیل کو بھی ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
فرخ حبیب کا نام بھی اس فہرست میں ہے اور عمران خان ان سے سب سے زیادہ دکھی ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگوں نے پریس کانفرنس کی، یہ بھی کر کے سائیڈ پر ہو جاتے۔ لیکن انہوں نے ہر چیز کا ملبہ مجھ پر ڈالا جو ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے چوک میں بیٹھ کر مجھے گندا کیا ہے، ان سے اب کسی قسم کا رابطہ نہیں ہو سکتا۔
عامر کیانی کے بارے میں عمران خان سمجھتے ہیں کہ برے وقت میں ان کا رویہ بہت برا ثابت ہوا اس لیے انہیں ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ فیاض الحسن چوہان کے بارے میں بھی عمران خان کی رائے کچھ اچھی نہیں ہے اس لیے عمران خان انہیں کوئی رعایت نہیں دینا چاہتے۔ عندلیب عباس کے نام پر بھی کراس لگ گیا ہے۔ انہوں نے مزاحمت تو کی تھی لیکن بعدازاں ان کا رویہ بھی ناقابل برداشت تھا۔ مراد راس کی واپسی کا بھی کوئی راستہ نہیں۔
جاوید چودھری کے مطابق عمران خان پرویز خٹک کا نام خود لینا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی کی زبان سے سننا چاہتے ہیں۔ محمود خان کے بارے میں عمران خان کا کہنا تھا کہ اس شخص کو پوری پارٹی کی مخالفت کے باوجود وزیر اعلیٰ بنایا اور اب جا کر پرویز خٹک کے ساتھ بیٹھ گیا ہے جو اسے وزیر اعلیٰ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
یوں تو فہرست کافی لمبی ہے لیکن فیصلہ یہی کیا گیا ہے کہ عمران خان کے خلاف پریس کانفرنسیں کرنے والوں کو پارٹی ٹکٹ دیا جائے گا اور نہ ہی کبھی دوبارہ پارٹی میں شامل کیا جائے گا۔
صحافی کا کہنا تھا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں سردست تو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جائے گا لیکن مستقبل میں ان کے پارٹی میں شمولیت کا امکان ہے۔ صداقت علی عباسی کے بارے میں عمران خان کے دل میں ہمدردی اب بھی موجود ہے اور ان کا خیال ہے کہ صداقت عباسی کے ساتھ جو بھی ہوا غلط ہوا اور انہوں نے پارٹی چھوڑ کر اپنی جان بچا کر اچھا فیصلہ کیا۔ مستقبل میں اگر حالات ٹھیک ہوئے تو ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے دروازے صداقت عباسی کے لیے کھل جائیں۔
عثمان ڈار نے اگرچہ پریس کانفرنس یا ٹی وی پروگرام کیا لیکن وہ اس حد تک نہیں گئے کہ پارٹی قیادت کو اس سے کوئی چوٹ پہنچی ہو۔ عثمان ڈار کو تو ٹکٹ نہیں ملے گا مگر وہ جس شخص کو نامزد کریں گے اس کو ٹکٹ جاری کر دیا جائے گا۔ علی نواز اعوان سے بھی عمران خان خوش نہیں ہیں۔ انہیں ٹکٹ نہیں دیا جا رہا لیکن ان کے کہے پر کسی اور کو ٹکٹ جاری کیا جائے گا۔ عمران خان شیریں مزاری کی آج بھی بہت قدر کرتے ہیں اور ان سے ہمدردی رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی اور انہیں عدالتوں میں گھسیٹا گیا۔ تاہم وہ بھی سردست اس فہرست میں شامل نہیں جن کو ٹکٹ مل سکتا ہے۔