مہ پارا صفدر نے "میرا زمانہ، میری کہانی" میں ایک پورا عہد رقم کر دیا

مہ پارا صفدر نے
آج بھی یاد ہے کسی کام سے لاؤنج میں آئی تھی۔ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر ایک انتہائی دل کش چہرہ میری آنکھوں میں جیسے کھب سا گیا۔ کون ہے؟ کوئی نئی لڑکی۔ سوال جواب دونوں خود سے ہوئے تھے۔ لہجے کا اُتار چڑھاؤ، تلفظ، ادائیگی اس پر ستم من موہنی سی صورت۔ اگلے دن خبرنامے سے پہلے تجسّ لاؤنج میں لے آیا تھا۔ مہ پارہ زیدی۔ بڑا رشک آیا۔ خبریں پڑھنا میرا بھی خواب تھا۔ مگر سب خواب کہاں پورے ہوتے ہیں؟

مہ پارہ زیدی سے محبت ہوگئی تھی۔ اُسے دیکھنا، اُسے سننا اور اسے سراہنا مجھے ہمیشہ بہت اچھا لگتا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو پالنے کے ساتھ ساتھ اردو ڈائجسٹ کے پرچے ”زندگی“ میں سیاسی رپوٹنگ بھی کرتی تھی۔ بے نظیر بھٹو لاہور میں آج کس کے گھر پارٹی کارکنوں سے خطاب کر رہی ہے۔ کہاں اس کی خفیہ میٹنگ ہے؟ مجھے وہاں جانا ہوتا تھا۔ پتہ نہیں ایسے میں میرے اندر یہ خواہش کیوں مچلتی کہ کاش کہیں مہ پارہ زیدی سے بھی ملاقات ہو جائے تو کتنا مزہ آئے۔

صفدر ہمدانی سے محبت اور شادی کی کہانیاں اخبارات اور رسائل میں ہم نے بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر ذوق و شوق سے پڑھیں۔ دھنک ان دنوں کا ہاٹ پرچہ تھا۔ سرور سکھیرا، افضال شاہد، حسن نثار، اظہر جاوید اور کئی دیگر بڑے ناموں سے چمکتا جگمگاتا رنگ رنگیلی خبروں سے دمکتا۔

پھر میرا یہ افسانوی کردار کہیں دور دیسوں میں جا بسا۔ کبھی یاد آتی تو ایک کسک سی سینے میں اٹھتی۔ کیسی طرح دار لڑکی جس کی صورت اور آواز کا جادو کِسی میٹھی یاد کی طرح نہاں خانہ دل میں رہا۔

کوئی پانچ ماہ قبل اسی سال 2023 فروری کے میٹھے سے دنوں میں جہلم بک کارنر کی طرف سے ایک کتاب کا بڑا چرچا ہوا۔ میرا زمانہ میری کہانی۔ مصنفہ کون تھی؟ مہ پارہ صفدر۔ دل میں ہلچل مچی ”بھئی اسے تو فوری خریدنا ہے اور پڑھنا ہے۔ دیکھیں تو سہی ہماری اُدھیڑ عمری کی دنیا کی یہ خبرنامہ کی ہیروئن کیا لکھتی ہے۔“

کتاب پیارے گگن شاہد نے فوراً بھیج دی۔ دو تین دن بعد اسلم ملک فون پر تھے۔ 'میرا زمانہ میری کہانی'  کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، "الحمرا میں تقریب ہے۔ مہ پارہ کی خواہش ہے آپ نے آنا ہے وہ آپ کو فون بھی کریں گی۔" پھر اس مہ لقا کا فون آ گیا۔ وہ شین قاف کی کھنک پیدا کرتی خوبصورت آواز والی میری دل ربا۔ باتیں ہوئیں، چاہتوں اور محبتوں کا اظہار ہوا۔

اور میں نے کتاب کھول لی۔ کم و بیش پونے پانچ سو صفحات پر بکھری ضخیم کتاب لگا جیسے وہ کوئی مرر سٹوری تھی جس میں مجھے اپنا عہد جیتا جاگتا، سانس لیتا، خوشبوئیں بکھیرتا محسوس ہوا۔ کتاب کے آغاز میں ایک سوال تھا کہ میں نے یہ کتاب کیوں لکھی؟ مہ پارہ کی پیش کردہ وجوہات 'کیوں' کا جواب واضح انداز میں دے رہی تھیں۔ میرے خیال میں اس کے اظہار میں اگر وہ صرف یہی کہہ دیتیں کہ ایک عہد کا قیمتی، تاریخی خزانہ میرے پاس تھا جسے اِس ملک کی نئی نسل کو سونپنا میرے لئے اشد ضروری تھا تو  وہ بھی کافی تھا۔

علمی، ادبی اور تہذیبی رکھ رکھاؤ والے پس منظر سے تعلق کے باوجود مہ پارہ کی خالص پنجابی کلچر کے نمائندہ شہر سرگودھا سے والہانہ محبت کا اظہار اس کی پاکستانیت سے پیار کی گواہی ہے۔ رزق حلال عین عبادت ہے جیسے مدرسہ فکر سے تعلق رکھنے والے خاندان کے ہر کام اور انداز میں ایک نفاست و سلیقہ اور ایک رکھ رکھاؤ والا حسن تھا۔ جو یقیناً پنجاب کی رہتل و وسیب کے کھلے ڈلے ماحول سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ بچپن، جوانی کے اِس اہم حصے جس میں گھر اور گھر سے باہر تعلیمی سرگرمیوں والی زندگی کی جھلکیاں خوبصورت عنوانات کے تحت قاری کو گرفت میں جکڑنے والے انداز میں لکھی گئی ہیں اور حصّہ اول کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں۔

دوسرا حصّہ بھی بھرپور دلچسپی کا حامل ہے کہ اس میں معاشرے کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ معاشی و سیاسی حالات کے تجزیے اور مصنفہ کے سیاسی شعور کے ادراک کا احساس ہوتا ہے۔ لکھتی ہیں "فوج کے کمانڈر جنرل ایوب خاں کا خیال تھا کہ انڈیا نیشنل بارڈر عبور نہیں کرے گا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کشمیر میں آپ غیر اعلانیہ جنگ شروع کریں اور جس ملک کو آپ دشمن مان کر چل رہے ہیں اس سے یہ توقع کریں کہ وہ سرحد پار نہیں کرے گا۔ ایک جرنیل جو خود کو فیلڈ مارشل بھی کہلواتا ہو اس کی جنگی حکمت عملی کا یہ حال تھا۔"

آگے چل کر ایک جگہ بھٹو کے آپریشن جبرالٹر جس کا نام طارق بن زیاد کے ہسپانیہ پر کامیاب حملے پہ رکھا گیا کے بارے میں لکھا ہے: "کاش کہ آٹھویں صدی اور بیسویں صدی کے درمیان صدیوں کے فاصلے بھی حکمرانوں کے مدنظر رہتے۔" مزید لکھتی ہیں، "پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک ایسا المیہ تھا جس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا تھا مگر تاریخ کا اس سے بڑا المیہ یہ کہ قیادت کرنے والوں کا چونکہ کوئی ذاتی نقصان نہیں ہوتا اس لئے وہ ایسی غلطیاں بار بار کرتے ہیں۔"

مصنفہ کی سیاسی بصیرت یہ کہتی ہے کہ کاش یہ سب کچھ نہ ہوتا تو آج پاکستان ایک مختلف ملک ہوتا۔ ان تجزیوں سے مصنفہ کے ناصرف سیاسی شعور کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ وطن سے محبت کی جھلک بھی نمایاں نظر آتی ہے جو ان کی مٹی سے جڑی زندگی اور محبت سے سرشار دھڑکتے دل کی علامت ہے۔ اردو ادب پر پینسٹھ (1965) کی جنگ کے اثرات کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ اس زمانے میں ہر ہیرو فوجی افسر اور ہیروئن فوجی افسر کی بیوی یا بیوہ ہوتی تھی۔ پچاس سال میں زندگی کتنی بدل گئی ہے بقول مصنفہ سڑک پر چلتے ہوئے کسی فوجی کو دیکھ کر ہر کوئی ہاتھ ملانا سعادت اور اب بقول میرے قباحت سمجھتا ہے۔ اب ذرا مصنفہ کے الفاظ میں سقوط ڈھاکہ کے واقعے کو بھی دہرا لیتے ہیں۔ 16 دسمبر 1971 کی رات نو بجے ٹی وی کی خبروں میں ملک ٹوٹنے کا جو اعلان ہوا وہ محض 24 الفاظ پر مشتمل تھا۔



انڈیا اور پاکستان کے فوجی کمانڈرز کے درمیان طے ہونے والے معاہدے کے مطابق مشرقی محاذ پر جنگ ختم ہو گئی ہے اور انڈین فوج ڈھاکہ میں داخل ہو گئی ہے۔ مصنفہ لکھتی ہیں یہ ستم ظریفی تھی کہ جب ملک کا مشرقی بازو جدا ہوا تو مغربی پاکستان کی فضاؤں میں چند چیخوں کے سوا خاموشی رہی۔ یہ حقیقت بارہا سامنے آ کر تڑپاتی رہی مگر مہ پارہ صفدرکی تحریر میں جس درد کو بیان کیا گیا ہے اُسے میرے دل نے ایک طویل عرصے تک لہو لہو پوربو پاکستان کی صورت محسوس کیا تھا۔ 'تنہا' (مشرقی پاکستان پر میرا ناول) اس دکھ کا اظہار ہے۔ میری آنکھیں بار بار اشک بار ہوتی رہیں۔

یہ تحریر کی سچائی اور اثر انگیزی کا اعجاز ہے کہ قاری پڑھتے ہوئے اس میں گم ہو جائے۔ ماں باپ اور بہنوئی سے محبت میں ڈوبی تحریر نے آنکھیں نمناک کر دیں۔ غیر شادی شدہ خاتون کا سفری بیگ کے ساتھ شمالی علاقہ جات میں ٹینٹ میں سونے کا واقعہ اس زمانے کے سماجی ماحول کو بیان کرتا ہے۔ بھٹو کا زمانہ اور پھر ضیاالحق کے زمانے میں مشہور زمانہ مسئلہ دوپٹے کا اوڑھنا۔ مصنفہ لکھتی ہیں: "جنرل صاحب کو میرا اس طرح دوپٹہ اوڑھنا سخت ناگوار گزرا۔ اگلے ہی دن سیکرٹری انفارمیشن مجیب کے ذریعے پیغام ملا۔ مہ پارہ صفدر سے پوچھیے کیا وہ دوپٹے کا مذاق اڑانے کی کوشش کر رہی ہے؟ چند ہفتوں بعد میک اپ نہ کرنے کے احکامات جاری ہو گئے۔" مصنفہ لکھتی ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک پروفیشنل ادارے کے لئے اس قسم کے غیر معمولی نوعیت کے احکامات ملک کے فوجی سربراہ کی جانب سے جاری ہو رہے تھے۔ ایک اہم بات جو مصنفہ نے لکھی وہ یہ کہ جو کچھ میں اب لکھ رہی ہوں یہ میری بڑی گھمبیر خاموشی اور خود پر جبر کا نتیجہ ہے جس کے حصار سے نکلنے میں مجھے برسوں لگے۔ برسوں کی خاموشی ٹوٹی تو کیا ٹوٹی کہ ایک عہد رقم کر دیا۔

تیسرا حصہ جو مصنفہ کی پاکستان سے باہر کی زندگی کا نمائندہ ہے، حد درجہ دلچسپ ہے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ اجنبی دیس اور ایک دلیر خاتون کی جدوجہد کی مکمل کہانی سامنے آتی ہے۔ ایران و شام کی سیاحت اور وہاں کے حالات کی چشم کشا تصویریں، ادبی اور فلمی مشاہیر جن میں ہماری محبوب الطاف فاطمہ (الطاف آپا) ندیم، زیبا، محمد علی ان سبھوں کو مہ پارہ کی نظر سے لکھے گئے کو پڑھنے میں سرور ملا۔

آخر میں مہ پارہ کی منتخب شاعری پڑھنے کو ملی۔ اس کی شاعرانہ حیثیت سے مجھے قطعاً کوئی آگاہی نہ تھی۔ لطف آیا۔

مہ پارہ میں مشکور ہوں تمہاری کہ تم نے ایک عہد کو ثقافتی، سیاسی، ادبی حوالوں سے قلم بند کیا اور اُسے تاریخ میں محفوظ کیا۔

یہ تمہاری تحریرکے جادوئی حسن کا کمال تھا کہ اتنی موٹی کتاب باوجود بڑھاپے اور آنکھوں کی تکلیف کے ذوق و شوق سے پڑھی۔

جہلم بک کارنر والوں کو بھی خراج تحسین پیش کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے اِسے بہت خوبصورت انداز میں شائع کیا۔

تمہاری خوش نصیبی میں کوئی شبہ نہیں کہ تمہیں صفدر ہمدانی جیسا زندگی کا ساتھی ملا۔ بہت دعائیں اور محبتیں مہ پارہ صفدر۔

سلمیٰ اعوان معروف افسانہ نگار اور ناول نویس ہیں۔ انہوں نے متعدد سفرنامے بھی تحریر کیے ہیں۔