اسلام آباد کی لال مسجد اور حکومت کے درمیان منگل کے روز ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت مولانا عبدالعزیز دو ماہ کے لئے لال مسجد سے جامعہ حفصہ منتقل ہو جائیں گے اور دو ماہ بعد ان پر تمام پابندیاں ختم کر دی جائیں گی۔
لال مسجد کے ترجمان اور غازی عبدالرشید کے فرزند ہارون غازی نے میڈیا کو جاری کیے گئے ایک مراسلے میں کہا کہ منگل کے روز حکومت اور مولانا عبدالعزیز کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس پر حکومت کی جانب سے دستخط اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر محمد حمزہ شفقات نے کیے جب کہ کالعدم جماعت اہل سنت والجماعت کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی نے حکومت اور لال مسجد کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مولانا عبدالعزیز دو مہینے کے لئے لال مسجد سے جامعہ حفصہ منتقل ہو جائیں گے جس کے بعد تمام ذمہ داریاں مسجد کے دیگر منتظمین کے حوالے کی جائیں گی اور دو ماہ بعد مولانا عبدالعزیز پر نہ صرف سفری پابندیاں ختم ہو جائیں گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ملک بھر کے دورے بھی کر سکیں گے۔
واضح رہے کہ معاہدے میں دو کردار بہت اہم ہیں۔ ایک احمد لدھیانوی جب کہ دوسرا کردار ہارون غازی کا ہے جس پر اسلام آباد کے سکیورٹی ماہرین حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں۔
اہل سنت والجماعت سپاہ صحابہ پاکستان کا تسلسل ہے جس کی بنیاد حق نواز جھنگوی نے 1985 میں پنجاب کے ضلع جھنگ میں رکھی تھی اور جس کے بعد 1996 میں آپسی اختلافات کی وجہ سے تنظیم کے کچھ سرکردہ لوگوں نے سپاہ صحابہ سے الگ ہو کر لشکرِ جھنگوی کی بنیاد رکھی۔ تاہم، جنرل پرویز مشرف نے اس تنظیم پر دہشگردی میں ملوث ہونے پر پابندی لگا دی تھی جب کہ مشرف نے اپنی کتاب In the Line of Fire میں بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ انہوں نے 2002 میں اس تنظیم پر پابندی لگائی تھی۔
سپاہ صحابہ پر پابندی لگنے کے بعد تنظیم کے سربراہوں نے ملت اسلامیہ پاکستان کے نام سے نئی تنظیم بنا دی جس پر 2003 میں پابندی لگائی گئی۔ 2008 میں سپاہ صحابہ سے وابستہ احمد لدھیانوی نے اپنی نئی تنظیم اہل سنت والجماعت کی بنیاد رکھی۔ تاہم، وہ بھی کچھ عرصے بعد دہشتگری میں ملوث ہونے پر کالعدم قرار دی گئی اور ان کے تمام اثاثے ضبط کر لیے گئے۔
مگر 2018 کے عام انتخابات سے ایک ماہ پہلے نہ صرف احمد لدھیانوی پر پابندی ختم ہو گئی بلکہ انہوں نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو عام انتخابات میں بہت سے مواقع پر معاونت فراہم کی۔ دہشتگردی پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق سپاہ صحابہ اور اہل سنت والجماعت کے ملک بھر میں چار سے زیادہ دفاتر ہیں اور ان کے کارکن تاحال ہزاروں میں ہیں جب کہ ان کے کارکنوں کی زیادہ تعداد اس وقت جھنگ، پاڑہ چنار اور گلگت میں ہے جہاں ماضی میں فرقہ ورانہ فسادات میں ہزاروں لوگ مارے گئے۔ سکیورٹی ماہرین کے مطابق احمد لدھیانوی کا کردار ہمیشہ سے پر اسرار رہا اور وہ ہمیشہ ملکی اسٹیبلیشمنٹ کے قریب رہے۔
اسلام آباد کے ایک صحافی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ نہ صرف لدھیانوی کا کردار پراسرار ہے بلکہ اس کے ساتھ ہاروں غازی عبدالرشید کا کردار بھی قابل بھروسہ نہیں اور بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ نہ صرف یہ معاہدہ ناکام ہوگا بلکہ اس کے ساتھ مولانا کی لال مسجد واپسی یا ان پر لگی پابندیاں اُٹھانا بھی قابل بھروسہ نہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ مولانا عبدالعزیز کو لال مسجد سے نکالنے کی ایک کاوش ہے اور مستقبل میں تمام ذمہ داریاں ہارون غازی کے پاس ہوں گی۔ وہ ریاست کو اس لئے پسند ہے کیونکہ وہ اپنے والد کی طرح ایک معتدل شخص ہے جو کبھی مسائل پیدا نہیں کرتا۔
بدھ کے روز لال مسجد کے سامنے سے تمام رکاوٹیں ہٹا لی گئی تھیں جب کہ اس کے ساتھ ساتھ پولیس کو بھی لال مسجد کے اطراف سے ہٹا دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ لال مسجد کے سابق ترجمان حافظ اہتشام نے ہارون غازی پر سخت الزامات لگائے تھے اور کہا تھا کہ ہارون غازی نے لال مسجد کے نام پر بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے پلاٹ اور ایک گاڑی لی ہے مگر ان کے فوائد لال مسجد کو نہیں ملے اور کچھ وقت پہلے خبریں سامنے آنے کے بعد ہارون غازی نے وہ گاڑی بیچ کر دوسری گاڑی لے لی۔
لال مسجد اور حکومت کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز مسجد کے اندر واقع اپنی رہائش گاہ منتقل ہو گئے جس کے بعد کئی بار لال مسجد کا گھیراؤ کیا گیا تھا۔ اس دوران عبدالعزیز نماز جمعہ بھی پڑھاتے رہے۔ اتوار کو ان کی دختر دعا طیبہ کو بھی گرفتار کیا گیا تھا لیکن چند ہی گھنٹے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔