رابرٹ فسک: بھارت اور پاکستان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی میں اسرائیل کا کردار

رابرٹ فسک: بھارت اور پاکستان کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی میں اسرائیل کا کردار
مایہ ناز تجزیہ کار رابرٹ فسک کا یہ مضمون برطانوی جریدے Independent میں شائع ہوا تھا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔

جب میں نے پہلی دفعہ خبر سنی کہ دہشت گردوں کے کیمپوں پر حملہ ہوا ہے، ایک کمانڈ اور کنٹرول سنٹر کو اڑا دیا گیا ہے جبکہ بہت سے دہشت گرد مارے گئے تو میں سمجھا کہ اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملہ کیا ہے یا شام پر۔ ہمیں بتایا گیا کہ فوج دہشت گرد حملے کے جواب میں یہ کارروائی کر رہی تھی۔ ایک اسلامی جہادی کیمپ اڑا دیا گیا تھا۔ پھر میں نے بالاکوٹ کا نام سنا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ جگہ غزہ، شام یا لبنان میں نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ہے۔ یہ عجیب بات تھی۔ کوئی کیسے بھارت کے ہاتھوں ہوئے ایک عمل میں اسرائیل کے نقشِ پا دیکھ سکتا ہے؟ اسرائیل کی وزارت دفاع کا دفتر بھارتی وزارت دفاع کے دفتر سے کچھ 2500 کلومیٹر کی دوری پر ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے طریقہ واردات میں اتنی مماثلت؟

گذشتہ کئی ماہ سے اسرائیل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے ساتھ مل کر ایک خفیہ سیاسی اتحاد کا حصہ ہے، جبکہ بھارت اب اسرائیل کے اسلحے کی فروخت کی سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے۔ اس لئے یہ اتفاق نہیں تھا کہ بھارتی میڈیا اس بات کو بار بار اجاگر کرتا رہا ہے کہ بھارتی فضائیہ نے پاکستان کی حدود میں جیش محمد کے ٹریننگ کیمپوں پر حملے کے دوران اسرائیلی ساخت کے رافیل 2000 بموں کا استعمال کیا۔ بہت سے اسرائیلی اس طرح کے اہداف کو نشانے بنانے کے محض دعوے ہی کرتے رہتے ہیں، بھارت کا پاکستان کی حدود میں یہ آپریشن بھی فوجی کامیابی سے زیادہ تصوراتی اور افسانوی بات ہے۔ تین سو سے چار سو دہشت گرد جو اسرائیل کے فراہم کردہ جی پی ایس سے لیس بموں کے ذریعے مارے گئے وہ بعد میں محض پتھر اور درخت نکلے۔ لیکن بھارتی افواج پر 14 فروری کو ہوا حملہ جس کی ذمہ داری جیش محمد نامی تنظیم نے قبول کی غیر حقیقی نہیں تھا اور اس حملے کے نتیجے میں چالیس بھارتی سپاہی مارے گئے۔ بھارتی فضائیہ کےاس ہفتے کم سے کم ایک  طیارے کو مار گرایا جانا بھی حقیقت ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=vSKAJpOC0Ro

بھارت 2017 میں اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا گاہک تھا اور اس نے 530 ملین امریکی ڈالروں کے عوض اسرائیل فضائی دفاع کے ریڈار کا نظام اور اسلحہ خریدا جس میں فضا سے زمین کو نشانہ بنانے والے میزائل بھی شامل تھے۔ ان میزائلوں کو اسرائیل نے فلسطین اور شام میں فوجی حملوں کے دوران اہداف کو نشانہ بنانے کے دوران بھرپور طریقے سے پرکھ رکھا تھا۔ اسرائیل بذات خود یہ وضاحت نہیں دے پا رہا کہ اس نے میانمار کے آمر کو اپنے ٹینکوں اور اسلحے کی فروخت کیوں جاری رکھی جب مغربی اقوام نے میانمار ک حکومت پر اپنی مسلمان اقلیت روہنگیا کے مسلمانوں کی نسل کشی کی وجہ سے پابندی لگائی ہوئی تھی۔ لیکن اسرائیل کی بھارت کو اسلحے کی فروخت قانونی ہے جسے دونوں ملک بھرپور طریقے سے مشتہر بھی کرتے ہیں۔

اسرائیلیوں نے اپنے خصوصی کمانڈوز اور بھارت کی جانب سے بھیجے گئے کمانڈوز کے نیو گار صحرا میں ہونے والی مشترکہ مشقوں کی فلم بھی بنائی۔ اسرائیل نے یہ فوجی مہارت غزہ اور دیگر سویلین علاقوں کو میدان جنگ میں تبدیل کر کے حاصل کی ہے۔ کم سے کم 16 بھارتی کمانڈوز جو بھارت کی جانب سے بھیجے جانے والے 45 رکنی فوجی دستے کا حصہ تھے کچھ وقت کیلئے نیواتیم اور پلماچم میں اسرائلی فضائیہ کے ہوائی اڈوں پر موجود رہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اسرائیل کے دورے کے جواب میں اسرائیلی وزیراعظم نے گذشتہ سال پہلی دفعہ بھارت کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران نیتن یاہو نے2008 میں جہادیوں کی جانب سے کیے جانے والے ممبئی حملوں کا ذکر کیا۔ نیتن یاہو نے مودی کو بتایا کہ "بھارت اور اسرائیل دہشت گرد حملوں کی تکلیف کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہمیں ممبئی کا ہولناک سانحہ یاد ہے۔ ہم نے اپنے دانتوں کوبھینچا۔ ہم نے مزاحمت کی اور ہمت نہیں ہاری"۔ یہی بی جے پی کی جانب سے بھی کہا جاتا رہا تھا۔

https://www.youtube.com/watch?v=PQ6mXROg140

بہت سے بھارتی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ دائیں بازو کی صیہونیت اور دائیں بازو کے قوم پرست مودی کے نظریات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد نہیں بننے چاہئیں۔ دونوں نے مختلف طریقوں سے برطانوی سامراج کے خلاف لڑائی لڑی تھی۔ برسلز سے تعلق رکھنے والی ایک تحقیقی ماہر شیری ملہوترا جن کا کام اسرائیل کے اخبار "ہاریٹز" میں بھی چھپ چکا ہے نے یہ بتایا ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد دنیا بھر میں انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد تیسرے نمبر پر ہے (اٹھارہ کروڑ)۔

انہوں نے گذشتہ برس لکھا تھا کہ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کو عام طور پر حکمران جماعت بی جے پی اور صیہونیت کے مشترکہ نظریات کا سنگم قرار دیا جاتا ہے۔ ہندو قوم پرستوں نے "ایک بیانیہ تشکیل دیا ہے کہ تاریخی اعتبار سے ہندو مسلمانوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے آئے ہیں"۔ یہ بیانیہ ان ہندوؤں کیلئے کشش رکھتا ہے جو ابھی بھی تقسیم اور پاکستان کے ساتھ خراب تعلقات کو لے کر ناخوش ہیں۔ بلکہ ملہوترا نے اسرائیلی اخبار "ہاریٹز" میں یہ کہا کہ "بھارت میں اسرائیل کے سب سے بڑے پرستار انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ہندو" ہیں جنہیں بنیادی طور پر اسرائیل کا فلسطین اور دیگر مسلمانوں کے خلاف لڑنا بھلا لگتا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=sBKVaF5Jn7g

شیری ملہوترا نے کارلیٹن یونیورسٹی کے پروفیسر وویک دوہیجا پر بھی تنقید کی جنہوں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ بھارت، اسرائیل اور امریکہ کو ایک تین رکنی اتحاد قائم کرنا چاہیے کیونکہ یہ تینوں ممالک "اسلامی دہشت گردی" کا شکار ہوئے ہیں۔ جبکہ 2016 کے آخر تک بھارت سے تقریباً 23 افراد عرب دنیا میں داعش کیلئے لڑنے گئے۔ اس کے مقابلے میں بیلجیئم جہاں مسلمانوں کی تعداد محض پانچ لاکھ ہے وہاں سے مسلمانوں نے پانچ سو عسکریت پسند پیدا کیے۔ شیری ملہوترا کا بنیادی نقطہ نظر یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات نظریات کے بجائے عملیت پسندی پر مبنی ہونے چاہئیں۔ لیکن یہ بہت مشکل ہے کہ کیسے صیہونی قوم پرستی، ہندو قوم پرستی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو گی جبکہ اسرائیل بھارت کو اس قدر بھاری مقدار میں اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور جس میں سے دیا جانے والا تازہ اسلحہ وہ بھی ہے جو بھارت نے پاکستان کی حدود میں جہادیوں کےخلاف استعمال کیا ہے۔ بھارت کے اسرائیل سے خارجی تعلقات 1992 سے قائم ہیں۔

"دہشت گردی کے خلاف جنگ" میں بالخصوص "مسلمان دہشت گردوں" کے خلاف دونوں ریاستوں کا یکجا ہونا ایک قدرتی عمل لگتا ہے جو سامراجی تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آئیں اور جن کے دفاع کو مسلمان ہمسایہ ممالک کے باعث خطرات لاحق رہتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں، ان دونوں ریاستوں کی لڑائی دراصل علاقوں پر تسلط جمانے یا ان پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کیلئے ہے۔ اسرائیل، بھارت اور پاکستان تینوں جوہری صلاحیت کے حامل ممالک ہیں۔ یہ وجہ کشمیر اور فلسطین کے معاملات کو مزید پیچیدہ نہ بنانے کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ اور بھارت کے اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کوتنہا چھوڑنے کے اعتبار سے بھی۔